بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند رہنماؤں کی طرف سے بھارت کی حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دی گئی ہے اور اس تناظر میں ہفتہ کو مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
لیکن کرفیو اور سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کے باوجود مختلف علاقوں میں مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں اور کم ازکم دو مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا ہے۔
پولیس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کو بتایا کہ ان جھڑپوں میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت کم ازکم دس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
کشمیر پر بھارت کے انتظام کے مخالف علیحدگی پسند رہنماؤں کشمیریوں پر زور دیا ہے کہ وہ استصواب رائے کے حق میں اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور مارچ میں شریک ہوں۔
گزشتہ ماہ ایک علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور مختلف مظاہروں میں سکیورٹی فورسز سے ہونے والی مڈبھیڑ میں 50 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
ادھر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے جمعہ کو بلائے گئے اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اس سے قبل مودی کشمیری نوجوانوں سے اپیل کر چکے ہیں کہ وہ پرامن رہیں لیکن اس کے باوجود بھی صورتحال میں بہتری کے آثار دیکھنے میں نہیں آئے۔
بھارت اپنے پڑوسی ملک پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ سرحد پار سے دراندازی کر کے کشمیر میں اشتعال انگیزی کو ہوا دے رہا۔ تاہم پاکستان اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کشمیریوں کی سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔