بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شدید پابندیاں 30 ویں روز میں داخل ہو گئی ہیں جن میں کرفیو کے علاوہ انٹرنیٹ، موبائل فون اور لینڈ لائن کی بندشیں شامل ہیں۔
جموں اور کشمیر کے لئے بھارتی حکومت کے ترجمان روہیت کنسل کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر کے 90 فیصد علاقے میں پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔ لینڈ لائنیں اور موبائل فون بحال کر دیے گئے ہیں۔ سکول کھول دیے گئے ہیں اور دفتروں میں حاضری بھی بڑی حد تک معمول پر آ چکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسپتال بھی معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں اور پھلوں اور دیگر اشیائے ضرورت کا سامان وافر مقدار میں کشمیر کے بازاروں میں دستیاب ہے۔
تاہم کشمیری ذرائع اور پاکستانی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ پابندیاں بدستور سختی سے جاری ہیں اور کشمیری شہری شدید تکلیف اور کرب میں مبتلا ہیں۔
بھارتی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے جموں اور کشمیر کے سابق گورنر جگ موہن ملہوتڑا سے ملاقات کی ہے اور ان کی جماعت بی جے پی کا یہ نصب العین ہے کہ لوگوں کو اس بارے میں بتایا جائے کہ بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35A کا خاتمہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔
Met Shri Jagmohan Malhotra ji, former Governor of Jammu & Kashmir as part of BJP’s nationwide Sampark and Janjagran Abhiyaan, to spread awareness about the benefits of abrogating Article 370 & 35A, a historic decision, by PM Shri @narendramodi ji. pic.twitter.com/hAhqe0NHvk
— Amit Shah (@AmitShah) September 3, 2019
بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے 5 اگست کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے جموں اور کشمیر کی خصوصی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ کشمیر کو یہ خاص حیثیت بھارتی آئین کی دفعات کے ذریعے حاصل تھی جس میں کشمیریوں کو جائیداد اور سرکاری ملازمتوں میں خصوصی حقوق حاصل تھے۔
بھارتی حکومت کے اس اقدام کے بارے میں بھارت کے اندر اور باہر قانونی چیلنج سامنے آئے اور بھارت کے ہمسایہ ملک پاکستان نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھارتی آئین اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بھی بھارتی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس بارے میں ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں بند کمرے میں اس معاملے پر بحث کی گئی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو کشمیریوں کے لئے ایک ’اجتماعی سزا‘ قرار دیا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فون لائنز، انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطے فوری طور پر بحال کیے جائیں کیونکہ یہ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔
ان 30 دنوں کے دوران وائس آف امریکہ سمیت بہت سے بھارتی صحافیوں نے کشمیر کا دورہ کر کے اپنی رپورٹس بھیجیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مواصلاتی رابطے مکمل طور پر بند ہونے کے باعث یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ عام کشمیریوں کے حقیقی حالات کیا ہیں۔
بھارت کی ممتاز صحافی نیرو پما سبرامنیم نے ایک ٹویٹ میں کہا، ’’میں نے 20 سے 25 اگست تک کشمیر کا دورہ کیا ہے۔ یہ بات باعث حیرت ہے کہ بھارت میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ لیکن کشمیر میں حقیقی صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے اور جب دھند چھٹے گی تو اصل چیلنج کے بارے میں معلوم ہو گا۔‘‘
Long overdue, long thread from #Kashmir from my visit to the Valley from Aug 20-25.It%27s surprising how many people believe India%27s Kashmir problem is solved.The reality on the ground is entirely different, & once the fog of celebration clears,the challenges may become apparent.
— Nirupama Subramanian (@tallstories) September 3, 2019
حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے صدر راہول گاندھی سمیت متعدد اپوزیشن راہنما کشمیر کے حالات کا براہ راست جائزہ لینے کے لئے 24 اگست کو سری نگر پہنچے۔ تاہم انہیں ہوائی اڈے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں وہیں سے واپس بھجوا دیا گیا۔
بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف گزشتہ 30 دنوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ برطانیہ کے معروف صحافی اور کالم نگار اووین جونز نے ٹویٹ میں کہا، ’’آج دوپہر کو مرکزی لندن میں بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں مودی سے کشمیر میں ظلم و ستم کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ میں مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔‘‘
Mass protest in central London this afternoon demanding an end to Modi’s brutal oppression of Kashmir. Solidarity with everyone protesting ✊ pic.twitter.com/2HnODCBVZx
— Owen Jones🌹 (@OwenJones84) September 3, 2019
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا، ’’اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور آئی پی ایچ آر سی نے کشمیر میں جاری غیر انسانی کرفیو اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کی شدید طور پر مذمت کی ہے اور شہری آزادی کو فوری طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
OIC-IPHRC strongly condemns the continuation of inhuman curfew and communication blackout in Indian Occupied Kashmir and calls for immediate restoration of civil liberties - The Independent Permanent Human Rights Commission https://t.co/6z7UwxaZUR
— Maleeha Lodhi (@LodhiMaleeha) September 3, 2019
اگرچہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ جموں اور کشمیر میں کرفیو اور دیگر پابندیاں بتدریج اٹھائی جا رہی ہیں اور حالات رفتہ رفتہ معمول پر آ رہے ہیں، بھارت کے اندر اور باہر بہت سے حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ 30 دن سے جاری اس صورت حال کے جلد معمول پر آنے کا امکان کم ہی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے کے لئے نیویارک آئیں گے جہاں مبصرین کے مطابق ایک بار پھر مسئلہ کشمیر بحث و مباحثے کا موضوع رہے گا اور دونوں ملکوں کی طرف سے جموں اور کشمیر کی صورت حال کے بارے میں الگ الگ مؤقف سامنے آئے گا۔
نریندر مودی اس دورے کے دوران ہیوسٹن کے این آر جی سٹیڈیم میں بھارتی کمیونٹی سے خطاب کریں گے جہاں ان کی تقریر میں کشمیر کی صورت حال ایک اہم موضوع ہو گا۔