جینیاتی خرابی کے باعث نابینا پن کا علاج دریافت

جینیاتی خرابی کے باعث نابینا پن کا علاج دریافت

سائنس دان ایک خاص نوعیت کی جینیاتی خرابی کے باعث بینائی سے محروم افراد کو دوبارہ دیکھنے کے قابل بنانے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کیے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوا ہے کہ نیا طریقہ علاج محفوظ اور مؤثر ہے اور نابینا پن کی ایک بہت عام خرابی دور کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

امریکہ میں تقریباً چار ہزار افراد شاذ و نادر ہونے والی ایک بیماری Leber's congenital amaurosis کے باعث دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس جینیاتی خرابی کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہوتے ہیں یا اپنی عمر کے ابتدائی چند ماہ میں ان کی نظر چلی جاتی ہے۔ ماہرین کے ایک اندازے کے مطابق ہر 80 ہزار میں سے ایک شخص اس جینیاتی خرابی کا نشانہ بن سکتا ہے۔

فلاڈیلفیا میں واقع یونیورسٹی آف پینسلوانیا میں آنکھوں کے شعبے کی ایک ماہر پروفیسر جین برنیٹ کا کہنا ہے کہ ہر سال لگ بھگ چار یا پانچ بچے آنکھوں کی اس پیدائشی خرابی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ آنکھ کے پردے کا بہت شدید مرض ہے۔ یہ نوزائیدہ بچوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ اور عام طور پر ایسے بچوں کے والدین کو پہلی بار تقریباً چھ ہفتوں کے بعد یہ علم ہوتا ہے کہ ان کا بچہ انہیں دیکھ نہیں پا رہا۔

ایل سی اے کے مرض کی وجہ ایک خراب جین ہے۔ یہ خرابی آنکھ کے پردے کو معمول کے مطابق کام کرنے سے روک دیتی ہے۔ دیکھنے کا عمل اس طرح ہوتا ہے کہ روشنی آنکھ میں داخل ہو کر پردہٴ بصارت پر تصویر بناتی ہے جو وہ دماغ کو منتقل کر دیتا ہے اور ہمیں وہ چیز دکھائی دینے لگتی ہے۔ مگر اس ایک خاص جین کی خرابی کی وجہ سے آنکھ کا پردہ معمول کا کام نہیں کر پاتا اور ایسا شخص بصارت سے محروم ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقت تک اس مرض کو کوئی مؤثر علاج موجود نہیں ہے۔

اس سلسلے میں کافی عرصے سے ماہرین اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے تھے اور جانوروں پر کیے جانے والے ایک سائنسی مطالعے کے دوران کیے جانے والے تجربات مؤثر رہے تھے اور ان کی دونوں آنکھوں کی دیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا تھا۔

پچھلے سال اس سلسلے میں پہلی بار انسانوں پر تجربات کیے گئے۔ طبی سائنس دانوں نے مذکورہ جین کی خرابی دور کی اور 12 مریضوں کی ایک آنکھ کے پردے میں اس کا انجیکشن لگایا۔ جس سے صحت مند خلیے بننا شروع ہو گئے۔

بینٹ کا کہنا ہے کہ مریضوں نے اپنے اندر ایک ڈرامائی بہتری محسوس کی اور ان کی ایک آنکھ میں بینائی میں بہتری آئی۔خاص طور پر ان کم عمر مریضوں کی آنکھو میں، جو ابھی مکمل طور پر نابینا نہیں ہوئے تھے۔

بینٹ کہتی ہیں کہ اس کے نتیجے میں وہ کتابیں پڑھنے اور کلاس میں اگلی نشستوں پر بیٹھ کر یہ دیکھنے کے قابل ہو گئے کہ استاد بلیک بورڈ پر کیا لکھ رہا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے گھر سے سائیکل پر سکول بھی آنے جانے لگے۔ جب کہ اس سے قبل وہ پڑھنے کے لیے بریل سیکھ رہے تھے۔ وہ کلاس کی آخری نشستوں پر ایک کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے تھے۔ جس کی سکرین پر ان کے لیے استاد کی تصویر کو بہت بڑا کر کے دکھایا جاتا تھا۔ وہ چلنے پھرنے کے لیے یا تو سفید چھڑی استعمال کرتے تھے یا پھر دوسرے لوگ انہیں کا بازو پکڑ کر چلاتے تھے۔

بینٹ، جو اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیقی ٹیم میں شامل تھیں، کہتی ہیں کہ اس مطالعے میں شامل مریض اپنی دوسری آنکھ کی جین تھراپی پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن ماہرین نے پہلے صرف ایک آنکھ کا علاج اس لیے کیا کیونکہ وہ یہ جائزہ لینا چاہتے تھے کہ آیا یہ طریقہ علاج انسانوں کے لیے محفوظ ہے۔اب طبی سائنس دان ان مریضوں کی دوسری آنکھ کے علاج کے لیے گرین سگنل کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ان کی دونوں آنکھوں کی نظر کو نمایاں طور پر بہتر بنایا جاسکے۔

بینٹ کا کہنا ہے کہ اس سے ملتے جلتے طریقہ علاج کو مستقبل میں ایسے مریضوں کی بینائی کی خرابی دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، جن میں یہ خرابی عمر میں اضافے کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہرسال ایک کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد کی نظر اس خرابی سے متاثر ہو جاتی ہے۔ یہ بیماری آنکھ کے اندر مرکزی حصے میں واقع زرد رنگ کے ایک چھوٹے سے حصے کو نقصان پہنچنے سے لاحق ہوتی ہے۔ اس حصے کو macula کہا جاتا ہے۔

سائنس دان اس مرض کا باعث بننے والے کئی جینز کی نشان دہی کر چکے ہیں۔

یہ معلومات سائنسی جریدے Translational Medicine میں پروفیسر جین بینٹ اور ان کی ٹیم کی تحقیق پر شائع ہونے والے مضمون سے ماخوذ ہیں۔