پاکستان: انسانی اسمگلنگ میں ملوث متعدد افراد کے خلاف کارروائی

فائل

ہر سال لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک جاتے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسمگلروں کو پیسے دے کر غیر قانونی طریقے سے یورپ اور دیگر ملکوں میں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گزشتہ ہفتے دو مختلف واقعات میں 19 افراد کی ہلاکت کے بعد انسانی اسمگلنگ کا معاملہ ایک بار پھر ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ مارے جانے والے افراد مبینہ طور پر اسمگلروں کی مدد سے ایران کے راستے یورپ جانے کی متمنی تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے جس کے انسداد کے لیے پائیدار کوششوں کی ضرورت ہے جن میں ملک میں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر سرحد کے آرپار لوگوں کی غیر قانونی ٹریفک کی روک تھام کے لیے مشترکہ تعاون بھی شامل ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف آئی اے' نے تربت کے واقعہ کے بعد ایسے 8 افراد کو حراست میں لیا ہے جو مبینہ طور پر لوگوں کو پیسے کے عوض غیر قانونی طور پر ملک سے باہر لے جانے کے کام میں ملوث تھے۔

ایف آئی اے گوجرنوالہ ڈویژن کے دپٹی ڈائریکٹر خالد انیس نے کہا ہے کہ ان میں سات افراد کو صوبہ پنجاب کے سمٹریال ، گوجرانوالہ اور گجرات اضلاع سے گرفتار کیا گیا ہے۔

خالد انیس نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " (ان اضلاع میں) نو مقامی ایجنٹوں کی ہم نے نشاندہی کی تھی ان میں سے سات کو گرفتار کر لیا ہے اور آفتاب نامی شخص کو کوئٹہ سے گرفتار کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ تربت میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے افراد کا تعلق گوجرانوالہ ڈیژن کے مختلف اضلاع سے تھا جنہیں مقامی ایجنٹوں نے بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دے کر آفتاب کے حوالے کیا تھا۔

خالد انیس نے کہا کہ " کوئٹہ اور پنجگو رکے مقامی ایجنٹ جو انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں ان کی نشاندہی کی کوشش کی جارہی ہے اور ان کے موبائل ڈیٹا کی مدد سے اس کام میں شریک دیگر افراد کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ہم نے اب تک تیرہ ایرانی ایجنٹوں، ایک جرمن اور ایک سپین کے ایجنٹ کی نشاندہی ہے اور ہم نے انٹرپول سے کہا ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کر کے ہمیں آگاہ کریں۔"

ہر سال ایک بڑی تعداد میں پاکستانی روزگار کی تلاش میں غیرقانونی طور پر یورپ اور دیگر ملکوں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں کئی ایک کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

اگرچہ تربت کے واقع کے بعد حکومت نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ضیااحمد اعوان نے کہا کہ ان کے خیال کے تربت میں ہلاک ہونے والے دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔

" یہ (افراد) دہشت گردی کی نذر ہو گئے اس کے ذمہ دار وہ انسانی اسمگلر ہیں جنہوں انہیں بیرون ملک لے جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کیا ۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ راستہ محفوظ نہیں تھا۔"

انہوں مزید کہا کہ کہ انسانی اسمگلنگ ایک بین الاقوامی معاملہ ہے اور جس کے تدارک کے لیے پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

" ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے طویل سرحد کو محفو ظ بنانے کی ضرورت ہے اور یہ کام مشترکہ کوششوں سے ہی ہو سکتا ہے۔"

ہر سال لاکھوں پاکستانی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک جاتے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسمگلروں کو پیسے دے کر غیر قانونی طریقے سے یورپ اور دیگر ملکوں میں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔