پاکستان میں کرونا وائرس سے پولیس اہلکار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ پنجاب میں پولیس اہلکار دوران ڈیوٹی وائرس کا شکار ہوئے ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر سندھ کے اہلکاروں میں کرونا وائرس پایا گیا ہے۔
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی مال روڈ پر لگے پولیس ناکے پر ڈیوٹی دینے والے اسسٹنٹ سب انسپکٹر ظفر اقبال (اہلکار کی نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر نام تبدیل کردیا گیا ہے) نے بتایا کہ 22 مارچ کو جب کرونا کے باعث لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا تو ان کی ڈیوٹی اِسی پولیس ناکے پر لگائی گئی تھی۔ وہ 12 گھنٹے یہاں ساتھیوں کے ساتھ فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر اقبال نے بتایا کہ اُن کے ذمے مال روڈ، ہال روڈ، نقی مارکیٹ اور بیڈن روڈ کے تجارتی مراکز کی نگرانی کرنا تھی جب کہ اُن کے ساتھی ناکے پر حکومت کی جانب سے قواعد و ضوابط کو یقینی بنا رہے تھے۔
اے ایس آئی ظفر اقبال کے مطابق شروع میں کاروباری مراکز کو بند کرانا ایک مشکل کام تھا۔ لوگ اُن کے ساتھ بحث و تکرار کیا کرتے تھے۔
ظفر اقبال کے بقول پہلے ہفتے یا 10 دن میں لوگوں نے لاک ڈاؤن کی خاصی پابندی کی۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے نرمی کے ساتھ ہی شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی بڑھنے لگی۔ اِس دوران وہ ہر گاڑی، موٹر سائیکل اور رکشے والے کو روک کر انہیں لاک ڈاؤن کی پابندی کا کہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کو شہریوں سے سختی سے پیش نہ آنے اور نرمی کے ساتھ کرونا سے احتیاط کے بارے میں بتانے کے احکامات تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دن دوران ڈیوٹی ہمارے ایک ساتھی کو بخار کی شکایت ہوئی تو افسران نے اُسے چھٹی پر بھیج دیا۔ جس کے چند دن بعد مجھے بھی گلے میں خراش اور بخار کی تکلیف محسوس ہوئی۔ ٹیسٹ کرانے پر معلوم ہوا کہ ہم دونوں کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم دونوں کو میو اسپتال لاہور منتقل کیا گیا۔ ہر وقت کرونا اور اِس سے ہلاکتوں کی خبریں سن سن کر ایسا لگتا تھا اب زندہ بچنا مشکل ہے۔ میو اسپتال میں دورانِ علاج جس طرح ڈاکٹروں اور اسپتال کے عملے نے اُن کا علاج اور دیکھ بھال کی، اُس سے ہمت بندھی کہ یہ بھی تو انسان ہیں جو کرونا کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ بس پھر میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب کرونا کو ہر صورت شکست دینی ہے۔
ظفر اقبال نے بتایا کہ 15 دن بعد تندرست ہو کر اپنے گھر منتقل ہو گیا۔ اِسی دوران لاہور پولیس کے مزید اہلکاروں میں کرونا وائرس کی موجودگی کی خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ ایک ہفتہ مزید گھر پر گزارنے کے بعد دوبارہ سے ڈیوٹی شروع کر دی ہے۔
ان کے بقول اب میری ڈیوٹی دوبارہ اِسی پولیس ناکے پر لگی ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب ہم افطاری کے بعد ڈیوٹی کرتے ہیں اور دن میں بازاروں میں دکانوں کے کرونا سے متعلق قواعد و ضوابط چیک کرتے ہیں۔ کرونا وائرس یہ نہیں پوچھتا کہ تم پولیس والے ہو یا نہیں۔
پنجاب پولیس کے اہلکار سب سے زیادہ متاثر
کرونا وائرس سے پنجاب پولیس کے اہلکار سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں 331 اہلکاروں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پنجاب پولیس انعام غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کرونا کے شکار اہلکاروں میں سے 54 اہلکار مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ محکمہ پولیس اپنے محدود وسائل کے ساتھ اہلکاروں کی صحت کو یقینی بنائے ہوئے ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایڈیشنل آئی جی بتاتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں کسی بھی فورس کے حوصلے بلند ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ محکمے نے اِسی پر زیادہ توجہ دی ہے۔
انعام غنی کے بقول پنجاب پولیس کے 143 اہلکاروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی جب کہ 1427 اہلکاروں کے کرونا ٹیسٹ منفی آئے ہیں۔ پولیس کے 188 اہلکار اس وقت مختلف قرنطینہ سینٹرز میں زیرِ علاج ہیں اور انہیں ویلفیئر فنڈ سے رقوم دی گئی ہیں تاکہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اہلکاروں کو حفاظتی کٹس، دستانے اور ماسک فراہم کیے ہیں جب کہ ہر ناکے پر پولیس اہلکاروں اور عوام کے لیے ہاتھ دھونے کی جگہ کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔
کرونا وائرس کے سبب پنجاب میں دو پولیس اہلکار موت کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔
کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور ذوالفقار حمید بتاتے ہیں کہ کرونا کے باعث لاہور پولیس کے دو ہیڈ کانسٹیبلز شمس شفیق اور رمضان عالم کی موت ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ذوالفقار حمید نے بتایا کہ دونوں اہلکاروں کو شہید کا درجہ دینے کے لیے اعلیٰ حکام سے بات کی جائے گی۔ ورثا کے لیے شہید پیکج کی منظوری کے لیے آئی جی پنجاب کو سفارش کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس کے اب تک 75 اہلکاروں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ وبا سے متاثر ہونے والے اہلکار صحت یاب بھی ہو رہے ہیں۔ اب تک 12 اہلکار صحت یاب ہو کر اسپتالوں سے ڈسچارج ہو چکے ہیں۔
پنجاب پولیس کے مطابق کرونا وائرس سے 12 ٹریفک وارڈنز بھی متاثر ہوئے ہیں۔
سندھ میں چار پولیس اہلکار وائرس سے ہلاک
صوبہ پنجاب کے بعد کرونا وائرس نے سب سے زیادہ سندھ کے پولیس اہلکاروں کو متاثر کیا ہے۔
ترجمان سندھ پولیس سہیل جوکھیو کے مطابق صوبہ بھر میں 180 پولیس اہلکاروں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
سندھ پولیس کے ترجمان نے کراچی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے راجہ محمد ثاقب کو بتایا ہے کہ وبا کا نشانہ بننے والے 180 اہلکاروں میں سے 31 صحت یاب ہو چکے ہیں جب کہ باقی مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ پولیس کے چار اہلکاروں کی کرونا وائرس سے موت ہو چکی ہے۔
ترجمان سندھ پولیس کے مطابق محکمے نے جوانوں کی حفاظت کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات کیے ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت کی جانب سے دیے گئے فنڈز میں تمام ضروری حفاظتی اشیا کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے تاکہ اہلکاروں کی حفاظت ممکن ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر پولیس یونٹ کو ہینڈ سینیٹائزر، ماسک، ڈیٹول، پی پی ایز (حفاظتی لباس) اور جراثیم کش صابن کی وافر مقدار مہیا کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ نے صوبے کے ہر ضلعے اور ٹریفک پولیس کو ایک ایک لاکھ روپے کی اضافی رقم بھی جاری کی ہے جو کرونا کے مریض اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کی ہنگامی مدد کے لیے استعمال کی جائے گی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ وائرس سے متاثرہ ہر اہلکار کے لیے فوری طور پر 10 ہزار روپے کی خصوصی امدادی رقم علیحدہ سے بھی جاری کی جا رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بتایا کہ ہر ضلعے میں ایمرجنسی کرونا ڈیسک کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جو کہ سندھ پولیس کے اہلکاروں کی ٹیسٹنگ اور دادرسی سے متعلق تمام معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں بھی اہلکار کرونا کی زد میں
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق خیبر پختونخوا کے شہر سوات اور مردان میں سب سے زیادہ پولیس اہلکار کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی کرونا کی وبا سے پولیس کے کئی اہلکار متاثر ہوئے ہیں تاہم ان میں سے بیشر صحت یاب ہو چکے ہیں۔
پولیس کے مطابق وائرس سے صوبے میں ایک پولیس اہلکار کی موت ہو چکی ہے۔ پولیس کانسٹیبل بم ڈسپوزل یونٹ نوشہرہ میں ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔
بلوچستان میں چار اہلکاروں میں وائرس کی تصدیق
کوئٹہ میں وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضٰی زہری کے مطابق بلوچستان میں کرونا وائرس سے مجموعی طور پر چار پولیس اہلکار متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرہ اہلکاروں میں سے دو کی موت ہو چکی ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق بلوچستان پولیس کے ایس آئی خدا بخش ساسولی اور اے ایس پی چوہدری مشتاق کا کرونا وائرس کے باعث انتقال ہوا ہے۔
اِس کے علاوہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسد ناصر اور ڈی آئی جی منظور حسین ہزارہ کا بھی کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ منظور حسین حال ہی میں محکمہ پولیس سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
مختلف شہروں میں پولیس اہلکاروں نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ بعض صوبائی حکومتوں نے ڈاکٹروں اور دیگر عملے کو اضافی تنخواہیں دی ہیں مگر پولیس والوں کو کوئی اضافی الاؤنس نہیں دیا گیا حالاں کہ اُن کی ڈیوٹی کے اوقات بھی پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔