کرونا وائرس کی عالمی وبا سے جہاں بہت بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے وہاں اس وائرس نےکروڑوں لوگوں کے لئے دنیا بھر میں شدید مالی پریشانیوں اور بے یقینی کو بھی جنم دیا ہے۔ اور روز بروز ان کی الجھنوں میں بظاہر اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
کیا ترقی یافتہ اور کیا ترقی پزیر ممالک، کسی کو بھی استثنٰی حاصل نہیں. البتہ، یہ بات غریب ملکوں کے لئے خاص طور سے زیادہ پریشان کن ہے کہ لاک ڈاون کی بنا پر ان ملکوں میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کے گھروں میں اب فاقہ کشی تک کی نوبت آ گئی ہے۔
بڑے چھوٹے تمام ملکوں نے اپنے اپنے وسائل کے مطابق مسئلے سے نمٹنے کے لئے اقدامات تو کئے ہیں، تاہم بیروزگاری کی شرح نے صورتحال کو گھمبیر بنا رکھا ہے۔
امریکہ بھی اس سے مثتثنٰی نہیں، جہاں صرف گزشتہ مہینے تقریباً ایک کروڑ لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے، جس کے نتیجے میں بے روزگاری کے نظام پر شدید بوجھ پڑا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں کارکنوں نے مراعات کے لئے درخواستیں دے رکھی ہیں۔ بعض یورپی ملکوں، مثلا ًجرمنی اور فرانس نے اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے مختلف صنعتوں میں کارکنوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کی مد میں رقوم مہیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے،جبکہ امریکہ نے نوکری سے نکالے جانے والے لاکھوں مزدوروں کے لئے سرکاری عانت میں اضافہ کرنے کا اقدام اٹھایا ہے۔
اس کے باوجود ماہرین کہتے ہیں کہ صورتحال میں ابہام موجود ہے۔ سیاٹل کے شہر میں ریسٹورانٹ میں کام کرنے والے ایک شخص رایان فریمین نے بتایا کہ اسے بیروزگاری کا کوئی چیک ابھی تک نہیں ملا۔ اس نظام پر بہت زیادہ بوجھ ہے اور ٹیلی فون پر رابطہ بھی ناممکنات میں سے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسی صورتحال سے بہت سے کارکن دوچار ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار برائین پیڈن کی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لئے بندش میں بہت سے کاروباروں کو تباہی کے دہانی پر لاکھڑا کیا ہے۔ امریکہ میں بہت سے کارکنوں کو ٓآجروں کی جانب سے دی جانے والی ہیلتھ کیئر کی کوریج سے بھی محروم ہونا پڑا ہے اور بہت سے کارکن مثلاً دستاویزات نہ رکھنے والے تارکین وطن بھی بیروزگاری کی مراعات کے زمرے میں شامل نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرکے گزر بسر کر رہے تھے۔
تاہم، وفاقی حکومت معمولی آمدنی رکھنے والے امریکیوں کو بارہ سو ڈالر کی رقم براہ راست مہیا کر رہی ہے۔ حکومت نے کارکنوں کو ملازمت پر برقرار رکھنے کی خاطر چھوٹے کاروبار کےلئے قرضوں کا پروگرام بھی متعارف کرایا ہے۔ جو اس صورت میں معاف کردئے جائیں گے جب مالکان کرونا وائرس کی وبا کے دوران اپنے ملازمین کو فارغ نہیں کریں گے۔ اسی دوران مختلف ریاستوں میں بہت سے لوگوں کو جو امداد کے منتظر ہیں اور بنیادی ضروریات کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں نیشنل گارڈز کھانا مہیا کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔
اس تمام پس منظر میں تجزیہ کاروں کا بہرحال یہ کہنا ہے کہ ان اقدامات سے فوری طور پر تو شائد معاملہ حل ہوجائے۔ لیکن، کارکنوں کی یہ تشویش اپنی جگہ برقرار رہے گی کہ بحران کے گزرجانے کے بعد اقتصادی بحالی کی سست روی کے پیش نظر ان کی پرانی نوکریاں برقرار رہ سکیں گی یا نہیں۔ اور یہ کہ ان کے معمول کے روز و شب کب واپس آسکیں گے؟