کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ویکسن کی تیاری پر ریسرچ جاری ہے۔ لیکن ساتھ ہی عارضی بنیاد پر بعض موجودہ دواؤں کا بھی تجربہ کیا گیا ہے اور وائرس میں مبتلا مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی ہے۔ تاہم، ابھی تک کامیابی کی کوئی علامت نظر نہیں آئی۔
ان میں ایک دوا ہائیڈروکسی کلوروکوئین بھی شامل ہے، جس کے استعمال پر بھی متضاد آرا آتی رہی ہیں۔ اور اس نے متنازعہ حثیت اختیار کر لی ہے۔ اس کے بارے میں قیاس آرائی کی جاتی رہی تھی کہ بنیادی طور پر ملیریا سے بچاؤ کی یہ دوا کرونا انفکیشن کو روکنے اور مریضوں کی صحت یابی میں مددگار ہوسکتی ہے
تاہم، طبی ماہرین کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ملے بلکہ اس کے برعکس ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ کرونا کے مریضوں پر اس کا استعمال دل کے عارضے کا سبب بن سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ اس کے بارے میں مختلف زاویہ نگاہ رکھتے ہیں۔ اور ان کا اب بھی اصرار ہے کہ اس دوا کے استعمال سے متعلق ان کی سوچ درست ہے۔ یاد رہے کہ کرونا وائرس کے انفیکشن کے لئے صدر ٹرمپ کا بھی ٹیسٹ کیا گیا تھا جو بہرحال منفی نکلا تھا۔ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ وہ خود گزشتہ دو ہفتوں سے اس دوائی کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا دفاع کرتے ہوئے، صدر ٹرمپ نے دلیل دی ہے کہ اس کا استعمال ایسے مریضوں کے لئے کیا گیا جن کی حالت غیر تھی اور وہ بہت بوڑھے اور پہلے ہی سے قریب المرگ تھے۔
دوسری جانب ماہرین کہتے ہیں کہ کرونا وائرس سے مقابلے کے لئے اس دوا کے استعمال کے فوائد کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ البتہ، اس کے سنگین ثانوی اثرات ہوسکتے ہیں، جن میں دل کے امراض کی پیچیدگیاں شامل ہیں۔
جانز ہاپکنز بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے پروفیسر ڈیوڈ سیلون کہتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس سے بچاؤکے لئے اس کے استعمال کی سفارش نہیں کریں گے اس لئے کہ دوسری جانب اس میں خطرات زیادہ ہیں۔
اس سے قطع نظر، اس حوالے سے ایک اور مسئلہ جو چل رہا ہے وہ عالمی ادارہ صحت کے بارے میں صدر ٹرمپ کا تنقیدی رویہ ہے اور انھوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ اس کی فنڈنگ مستقل طور پر بند کردیں گے۔ ان کا الزام ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پھوٹ پڑنے کے حوالے سے چین کے کردار پر پردہ ڈالنے میں ڈبلیو ایچ او نے اسے چھوٹ دی۔
امریکہ کی بڑھتی ہوئی تنقید کے پیش نظر ڈبلیو ایچ او کے ممبر ملکوں نے اس بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات پر اتفاق کیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے اعادہ کیا ہے کہ ادارہ شفافیت، جواب دہی اور مستقل بہتری کا پابند ہے اور ان ہی اصولوں پر عمل پیرا ہے۔
یاد رہے کہ ابھی جنیوا میں کرونا وائرس کی عالمی وبا کے مسئلے پر ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے ورچول اجلاس میں چین کے صدر شی نے کہا کہ وہ تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے جب تک کہ وبا پر قابو نہیں پالیا جاتا۔ صدر ٹرمپ نے اس ورچول اجلاس سے خطاب کرنے سے انکار کردیا تھا۔
وائس آف امریکہ کہ نامہ نگار پیٹسی ویڈہ کوسوارا نے اپنی رپورٹ میں یاد دلایا ہے کہ اجلاس میں چین نے ترقی پذیر ملکوں میں کووڈ نائنٹین کے مقابلے کے لئے دو ارب ڈالر کے عطیے کا بھی اعلان کیا۔
بہرحال مبصرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ اس مسئلے پر سیاسی محاذ آرائی کی بجائے اتحاد اور یکجہتی کی شدید ضرورت ہے۔ اس لئے کہ اگر اس عالمی وبا کے آگے بند نہ باندھا گیا تو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے الفاظ میں، لوگوں کو خوف اور عدم سلامتی کے ماحول میں زندگی گزارنی پڑے گی۔