'صحافیوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کس موقع پر کیا بات کرنی ہے'

  • قمر عباس جعفری

Newsroom (file)

کرونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستان میں میڈیا کا رول کیا رہا؟ اس بارے میں مختلف حلقوں کے خیالات کسی حد تک مختلف ہیں۔ بعض اسے منفی، بعض مثبت، جب کہ دیگر اس بارے میں ملے جلے خیالات رکھتے ہیں۔

جرنلزم کے سینئر استاد اور پاکستان کے حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستانی میڈیا کا جیسا رول اس وقت ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا''۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت رپورٹروں اور اینکروں کو نفسیاتی جنگ کے اصولوں سے واقف ہونے اور انہیں استعمال کرنے کی ضرورت تھی، جسے پورا نہیں کیا گیا۔

بقول ان کے، ''انہیں اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہے کہ کس موقع پر کیا بات کرنی چاہئیے؛ اور انکی کس بات کا ان لاکھوں لوگوں پر کیا اثر ہوگا جو انہیں سن اور دیکھ رہے ہیں''۔ انہوں نے کہا کہ اس میں میڈیا مالکان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں خصوصی تربیت کا اہتمام کریں۔

ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ یہ وقت دہشت پھیلانے کا نہیں ہے، کیونکہ جذباتی انداز کو فروغ دینے سے معاشرے میں تشویش پیدا ہوتی ہے؛ لوگوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں؛ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کے حوصلے بڑھائے جائیں''۔

پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے ایک دھڑے کے سربراہ، پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا اپنا موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کا اپنا کام انجام دے رہا ہے۔ انہوں کہا کہ ساری دنیا کا میڈیا اس طرح کام کرتا ہے اور اسوقت بھی اسی طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔

پرویز شوکت نے کہا کہ میڈیا کا بنیادی کام خبریں، اطلاعات اور حقائق پیش کرنا ہے اور اس وبا کے حوالے سے جو حقائق اسے حکومت کے ذریعوں سے مہیا کئے جاتے پیں وہ عوام تک پہنچا دیتا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ خبروں میں بعض وقت سیاست کا اثر بھی نمایاں ہوجاتا ہے، خاص طور سے آجکل وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان موجودہ صورت حال کے بارے میں تنازعات کے حوالے سے یہ بات نمایاں نظر آتی ہی۔

ممتاز صحافی اور کالم نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اس صورت حال کو اجاگر کرنے میں دیر کی اور زیادہ فوکس ہلاکتوں پر دیا، جس سے لوگوں میں نفسیاتی دباؤ میں اضافہ ہوا۔

انھوں نے کہا کہ بار بار کی اس تکرار کے سبب کہ اتنے لوگ ہلاک ہوئے جن میں بعض وقت ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا جاتا تھا جو نازک حالت میں؛ لیکن زندہ تھے۔ یا، بار بار معمر لوگوں کو باہر نہ نکلنے کے لئے خبردار کرنا بھی نفسیاتی دباؤ کا سبب بنا، کیونکہ 'امید اور خبردار کرنے' کے عمل میں بھی ایک توازن ضروری ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب میڈیا میں کچھ ٹھہراؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔ لیکن، اصل بات یہ ہے کہ خود میڈیا کو شروع ہی سے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہئیے تھا۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا کہ میڈیا کو اپنے کمرشیل مفادات کو سامنے رکھنے کے بجائے اسے عوام میں بیداری پیدا کرکے Perception تبدیل کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے، کیونکہ سوچ تبدیل کئے بغیر کوئی جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور پاکستان کے لئے کرونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنا بہت ضروری ہے۔