گزشتہ روز بھارتی جنگی طیاروں کی طرف سے پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے علاقے بالا کوٹ میں فضائی حملے کے جواب میں پاکستان کی فضائی کاروائی اور لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی فوج کی طرف سے فائرنگ اور گولہ بارود استعمال کیے جانے کی خبریں پاکستانی اور بھارتی میڈیا میں چھائی ہی ہوئی ہیں لیکن ساتھ ہی عالمی میڈیا بھی نہ صرف اس مسئلے پر بھرپور توجہ دے رہا ہے بلکہ مختلف پہلووں سے اس مسئلے پر تجزیے بھی شائع کئے جا رہے ہیں۔
ایک معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان بھارت کشیدگی کے پس منظر میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے "پاکستان اور بھارت تشدد کی سفارتکاری اور تباہی کو دعوت دینے کی راہ پر"
مضمون نگار کرسٹوفر کلارے جو سیاسی علوم کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور یونیورسٹی آف نیویارک سے وابستہ ہیں، لکھتے ہیں کہ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان 70 برسوں سے کشیدگی کے دوران زمینی جھڑپیں معمول کا حصہ ہیں لیکن 50 برسوں میں پہلی بار فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور پاکستان کا ردعمل بھی سخت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کو دنیا کی جانب سے کسی مصالحانہ کردار سے پہلے خود ہی اپنے اختلافات کے لیے مل کر بیٹھنا ہو گا۔ ان کے مطابق امریکہ فی الوقت اپنی خارجہ پالیسی میں شمالی کوریا، ایران اور وینزویلا کو اہمیت دیے ہوئے ہے اور ماضی کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان بھارت کے لیے کوئی خصوصی نمائندہ نہیں ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ چین کا کردار اس لیے نہیں بنتا کہ اس کا جھکاو پاکستان کی طرف ہے، روس اس لیے بے اثر ہے کہ وہ بھارت کا اتحادی سمجھا جاتا ہے جبکہ یورپ اس معاملے میں غیر متعلق دکھائی دیتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ ہی میں ایشان تھرور نے ورلڈ ویوز اینالسز میں پاکستان بھارت کشیدگی پر مختلف تھنک ٹینکس سے وابستہ تجزیہ کاروں کی رائے کو سمویا ہے۔ ان کے مضمون کے مطابق بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تنوی مدن کہتی ہیں کہ پاکستان کو اس کے محل وقوع کی وجہ سے دنیا سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ امریکہ، سعودی عرب اور چین جیسے ملکوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
جارج ٹاون سے وابستہ جنوبی اشیائی امور کی ماہر کرسٹین فئر کا تجزیہ اس مضمون میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایسے وقت میں جب بھارت میں انتخابات قریب آ رہے ہیں، پاکستان کے ساتھ سخت کشیدگی جہاں وزیراعظم نریندر مودی کے لیے مددگار ہو سکتی ہے وہاں ان کے الفاظ میں پاکستان کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کے بھی حق میں ہے کہ بھارت میں مودی پھر جیت جائیں۔
ایک امریکی ٹی وی چینل سی این این کے اینکر پرسن ڈان لیمن نے کنگز کالج لندن میں عالمی امور کے ایک پروفیسر پرش وی پانٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاکستان اور بھارت کے درمیان برھتی ہوئی کشیدگی کی نوعیت اور اثرات پر بات کی۔ پروفیسر پرش وی پانٹ کی نظر میں یہ کشیدگی عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے چار جنگوں کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج ایک دفعہ پھر بہت بڑا بحران لمحوں کے فاصلے پر ہے۔
بی بی سی ورلڈ اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتا ہے کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے لئے اصل چیلنج یہ ہے کہ یہ دونوں کشیدگی پر قابو پاتے ہوئے کسطرح حالات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسی آرٹیکل میں جان ہاپکن یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانس انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک ڈینئل مارکی کہتے ہیں کہ ہم جوہری جنگ سے کچھ ہی قدم پیچھے ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں پاکستان بھارت کشیدگی پر ’جنوبی ایشیا میں عالمی امن کے لئے ایک حقیقی خطرہ‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا گیا ہے۔ مضمون نگار اس کشیدگی کو ڈیٹرنس تھیوری کے لئے ایک ٹیسٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یعنی دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو اپنے خلاف کاروائی سے روکنے کے لئے جوہری ہتھیار بنائے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ اگر کشیدگی بڑھتی ہے تو یہ دونوں ملک جوہری ہتھیاروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کسطرح ایک محدود جنگ لڑتے ہیں۔
الجزیرہ اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھتا ہے پاکستان کو اپنی سرزمین پر موجود انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے اور دوسری جانب بھارت کو بھی کشمیر میں عام لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔