اسلام آباد کی ایک ضلعی عدالت نے دو فوجداری مقدمات میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں منظور کر لی ہیں اور انہیں پچاس پچاس ہزار کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج راجہ آصف محمود نے عبدالعزیز کے عدالت میں پیش ہونے کے بعد ان کی ضمانت کی درخواستوں کو منظور کر لیا۔
پیر کو عبدالعزیز کے وکیل طارق اسد نے دو کیسوں میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں کے علاوہ عدالت میں پیشی سے استثنیٰ اور بحفاظت عدالت میں لائے جانے کی درخواستیں جمع کرائی تھیں جنہیں مسترد کر دیا تھا۔
عبدالعزیز پولیس کو جن دو مقدمات میں مطلوب ہیں ان میں سے ایک مقدمہ اس وقت درج کیا گیا تھا جب عبدالعزیز کی طرف سے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کی مذمت سے انکار پر شہریوں نے لال مسجد کے باہر احتجاج کیا تھا۔
مظاہرین کے مطابق لال مسجد کی انتظامیہ اور خود مولانا عبدالعزیز نے انہیں دھمکیاں دیں جس پر ان کے خلاف تعزیزارت پاکستان کی دفعہ 506 بی کے تحت مجرمانہ دھمکیوں کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس موقع پر اسلام آباد کی ایک عدالت نے ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے تھے مگر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔
دوسرا مقدمہ 2014 میں ہی فرقوں اور مذاہب کے خلاف نفرت انگیز گفتگو کرنے پر تعزیرات پاکستان کی سیکشن 295-A کے تحت آبپارہ پولیس کی طرف سے درج کیا گیا تھا۔
ایک مقدمے کے مدعی جبران ناصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ منگل کو سماعت کے موقع پر عدالت میں موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے عبدالعزیز کو 25 فروری کو دوبارہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے جب اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں ان کیسوں کی تفتیش کے لیے پولیس حراست میں دیا جائے یا نہیں۔
جبران ناصر نے کہا کہ ایک کیس میں ریاست خود مدعی ہے اور اس مقدمے کی عدالت میں پیروی ظاہر کرے گی کہ حکومت واقعی انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کے خلاف بیانات اور فرقوں اور مذاہب کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے پر متعدد افراد کو گرفتار اور کئی تنظیموں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے مگر عبدالعزیز کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
’’مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب ریاست کے خلاف یا فرقوں کی بنیاد پر یا مذاہب کے خلاف نفرت انگیز گفتگو اور تقاریر کا سلسلہ جاری ہے اور نئی سے نئی وڈیوز آ رہی ہیں عبدالعزیز کی، اور داعش سے وفاداری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تو یہ ریاست کیوں سو رہی ہے، حساس ادارے کہاں سو رہے ہیں۔ اور یہ ہر تنظیم کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں جو اچھی بات ہے مگر اسلام آباد کی جامعہ حفصہ پر آ کے دم کیوں ٹوٹتا ہے، یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔‘‘
پاکستان کی حکومت کی طرف سے متعدد بار یہ کہا جا چکا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر میں کوئی تفریق نہیں کی جائے۔
جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں ریاست کی عملداری چیلنج کرنے پر لال مسجد کی انتظامیہ کے خلاف آپریشن کا حکم دیا تھا جس میں لگ بھگ 100 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں 11 سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ فوج نے آپریشن کے بعد لال مسجد کے اندر سے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کیا تھا۔
منگل کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور ہونے کے بعد اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے عبدالعزیز نے کہا کہ وہ سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اور آپریشن میں شامل دیگر افراد کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ جلد اپنے اہل خانہ کو اس کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔