کرونا وائرس ماں سے بچوں کو منتقل نہیں ہوتا: ماہرین

  • مدثرہ منظر

فائل فوٹو

کرونا وائرس جس تیزی سے پھیلا ہے اس نے دنیا بھر میں نظامِ صحت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کا ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او اور یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ یا یو این ایف پی اے کووڈ نائنٹین سے نمٹنے کےلئے مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ اور ان کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق، ماں بننے والی خواتین یا بچے کو، اور دودھ پلانے والی ماؤوں کو کووڈ نائنٹین سے کسی مخصوص خطرے کی شہادت تو نہیں ملی۔ البتہ، ان کے لئے بھی وہی احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری قرار دی گئی ہیں جو باقی لوگوں کیلئے ضروری ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس ماں سے بچے کو منتقل نہیں ہوتا۔ ماہرین

ڈاکٹر ثمرینا ہاشمی کراچی میں ایک تجربہ کار گائنا کولوجسٹ ہیں۔ وہ کووڈ نائنٹین کے ان دنوں میں بھی ماں بننے والی خواتین کو مکمل طبی سہولتیں اور دیکھ بھال مہیا کر رہی ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ کووڈ نائنٹین سے ماں بننے والی عورت کو بھی اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کہ کسی عام عورت یا مرد کو ہے اور اسے بھی وہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی جو باقی لوگوں کیلئے ضروری ہیں۔ لیکن، چونکہ ماں بننے والی عورت کا مدافعتی نظام بہت کمزور ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی صحت کا خاص خیال رکھے اور احتیاط بھی زیادہ کرے۔

یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ کی ایگزیکیٹیو ڈئریکٹر ڈاکٹر نتالیا خانم نے کہا ہے کہ اگرچہ خوف اور بے یقینی کرونا وائرس کا قدرتی ردعمل ہے مگر ہمیں ٹھوس حقائق اور اطلاعات پر انحصار کرنا چاہئے خاص طور پر ماں بننے والی خواتین اور بچے کو دودھ پلانے والی ماؤوں کیلئے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا کرنا وائرس متاثرہ ماں سے بچے میں منتقل ہو سکتا ہے ڈاکٹر ثمرینا نے کہا کہ ابھی تک اس بارے میں کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ تاہم، جہاں تک ان کی معلومات کا تعلق ہے ان کے علم میں ہے کہ تین بچوں کی پیدائش کے بعد ان میں کرونا وائرس کے اثرات پائے گئے مگر وہ ماں سے نہیں بلکہ ارد گرد کے ماحول سے ان میں منتقل ہوئے تھے۔

ڈاکٹر ثمرینا نے کہا کہ ماں بننے والی خواتین کیلئے چیک اپ کی سہولتیں اسی طرح موجود ہیں جیسا کہ اس وبا سے پہلے موجود تھیں۔ البتہ، اب وہ اپنے کلینک کے علاوہ ان خواتین کا معائنہ آن لائن بھی کرتی ہیں اور فون پر بھی وڈیو چیٹ یا تصاویر کے ذریعے مریض کی بتائی گئی کیفیت کے مطابق مشورہ دیتی ہیں اور کلینک میں بھی سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک پہننے کی پابندی کے ساتھ آنے والی خواتین کا معائنہ کرتی ہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ بعض صورتوں میں معائنے کا وقفہ بڑھا دیا جاتا ہے اور چار ہفتے کے بجائے آٹھ ہفتے کے بعد مریض کو دیکھا جاتا ہے۔

ماں بننے کا عرصہ خواتین کیلئے گوناگوں تبدیلیوں کا عرصہ ہوتا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ کی واضح ہدایات ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک کو یہ ممکن بنانا چاہئے کہ اس عرصے میں خواتین کو مکمل سہولتیں فراہم کی جائیں۔

ڈاکٹر ثمرینا ہاشمی کہتی ہیں کہ اگر ماں بننے والی عورت کوئی نمایاں اور غیر معمولی تبدیلی دیکھے تو کرونا وائرس ہو یا نہ ہو اسے فوراً ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے، تاکہ بچے اور ماں کی صحت کو درپیش کسی خطرے سے فوری طور پر نمٹا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ماں کرونا وائرس کا شکار ہو تو بھی اس کے بچے کو اس سے الگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی ماں اپنے بچے کو دودھ پلانا بند کرے، کیونکہ یہ خدا کی نعمت ہے کہ کرونا وائرس ماں کے دودھ سے بچے کو منتقل نہیں ہوتا۔ ضروری بات یہ ہے کہ ماں ماسک پہنے، اپنا لباس اور ہاتھ صاف رکھے اور بار بار ہاتھ دھوئے۔

ماں بننے والی عورت کی خوراک کے بارے میں ڈاکٹر ثمرینا نے کہا کہ بچے کی صحت مند پیدائش کے لئے ماں کا صحت مند ہونا اور اچھی غذا کھانا ضروری ہے، چنانچہ ماں کیلئے غذا میں پروٹین اور کیلشیم کا ہونا بہت ضروری ہے جو انڈوں اور مرغی سے ملتے ہیں لیکن اگر انڈے اور مرغی میسر نہ ہوں تو دالیں اور چنے بھی یہ کمی پوری کرسکتے ہیں۔

سبزیوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ بھی نہ ملے تو پیاز اور ٹماٹر کو بھی سبزی تصور کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماں بننے والی خواتین کو چاہئے کہ وہ خوب پانی پئیں مگر صاف پانی پئیں اور چاہے تو ابال کر پئیں تاکہ ان کے گردے صحت مند رہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حاملہ خواتین کے گردوں میں پتھری پیدا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ثمرینا ہاشمی کہتی ہیں کہ بچے کی پیدائش گھر میں ہو یا ہسپتال میں، ماں اور بچے کی دیکھ بھال میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ نائنٹین کے بارے میں تحقیق جاری ہے اور اس کے متعدد پہلوؤں کے بارے میں کوئی حتمی رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی۔ اس لئے سب سے زیادہ اہمیت احتیاط کی ہے اور اس یقین کی کہ ماں متاثر ہو بھی تو بھی بچہ محفوظ رہ سکتا ہے۔

اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پریگننسی کے دوران بہت سی چیزوں کے خلاف خبردار کیا جاتا ہے اور ان سے بچنے کی ہدایت کی جاتی ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ صاف فضا اور صاف پانی مہیا ہو۔ ماں اور بچے کو صحیح غذا ملے اور پیدا ہونے کے بعد بچہ ایسے ماحول میں آنکھ کھولے جہاں رنگ و نسل کا امتیاز نہ ہو، ملازمت اور روزگار کی ضمانت ہو اور اس کا مستقبل ہر بحران سے پاک ہو۔