کرونا وائرس کی وجہ سے لبنان کی حکومت کے نافذ کردہ کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باوجود، ملک کی بگڑتی معاشی صورت حال پر احتجاج کیلئے مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اِنہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بیماری یا بھوک سے مرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مزدور پیشہ اور متوسط طبقے کے لوگ اس وقت شدید دباؤ میں ہیں اور صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار پناہ گزیں ہیں جو آبادی کا سب سے کمزور طبقہ ہے۔
لاک ڈاؤن کے سبب ملازمتوں سے فراغت اور موسم میں تبدیلی کے سبب لبنانی دوبارہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں، اور پورے ملک میں مظاہرے جاری ہیں۔ چند شاہراہوں پر لو گوں نے ٹائر جلا کر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
وزیر صحت حماد حسن نے خبردار کیا ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حاصل کی گئی کامیابیاں، مظاہرین کی وجہ سے واضح طور پر خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
انہوں نے مظاہرین پر زور دیا ہے کہ وہ محتاط رہیں، ماسک پہنیں اور سماجی دوری برقرار رکھیں، تا کہ وائرس ایک سے دوسرے کو ،منتقل نہ ہو سکے۔
ملک بھر میں ان مظاہروں کا آغاز گزشتہ سال اکتوبر میں حکمران اشرافیہ کے خلاف اس وقت شروع ہوا جب عام آدمی کیلئے معاشی مشکلات کا دباؤ مسلسل بڑھتا چلا گیا۔
کرونا وائرس نے لبنانیوں کو کرنسی کی قدر میں گراوٹ، قیمتوں میں اضافہ اور ملازمتوں کی برطرفیوں کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید بڑھ گئی ہیں۔
کارنیگی انڈاؤمینٹ فار انٹرنیشنل پیس کے مشرق وسطی سے متعلق پروگرام سے وابستہ، جوزف باہوٹ کہتے ہیں کہ لبنان کرونا وائرس سے پہلے ہی سخت معاشی مشکلات کا شکار تھا، اور تقریباً دیوالیہ ہونے تک پہنچ چکا تھا۔
تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ لبنان کرونا وائرس کو قابو میں رکھنے میں خاصا کامیاب رہا ہے۔ لبنان کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ابھی تک لبنان میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد صرف710 ہے اور صرف 24 اموات ہوئی ہیں۔