کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال میں پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم نے ملک بھر میں رواں سال امتحانات کے بغیر طلبہ کو نئی کلاسز میں ترقی دینے کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بتایا تھا کہ قومی رابطہ کمیٹی برائے کرونا وائرس کے فیصلوں کے تحت ملک بھر میں تعلیمی ادارے 15 جولائی تک بند رہیں گے۔ نہم اور گیارویں جماعت کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر اگلی کلاسز میں ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جو طلبہ گزشتہ امتحانات میں 40 فی صد مضامین میں فیل ہوئے تھے ان صرف پاسنگ مارکس دیتے ہوئے اگلی کلاس میں ترقی دی جائے گی جب کہ اگلے سال وہ اسی کلاس کا امتحان دیں گے جس میں انہیں ترقی دی گئی تھی۔
اس فیصلے کے مطابق 10ویں اور 12ویں جماعت کے وہ طلبہ جنہوں نے اپنی سابقہ کلاسز کے تمام مضامین میں کمیابی حاصل کی ہو۔ انہیں بھی اگلی کلاس میں ترقی دے دی جائے گی۔ ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے گزشتہ امتحانات میں حاصل شدہ نمبرز میں 3 فی صد نمبرز کا اضافہ بھی کیا جائے گا۔
تاہم باقی کیٹیگریز میں آنے والے طلبہ کے لیے ستمبر یا اکتوبر میں حالات کے پیش نظر تمام 29 تعلیمی بورڈز کے خصوصی امتحانات منعقد کیے جائیں گے جن میں طلبہ کی تعداد کم ہو گی۔
حکام کے مطابق ملک بھر میں 40 لاکھ بچوں نے نویں، دسویں اور 11ویں 12ویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں شرکت کرنا تھے۔ امتحانات نہ لینے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ بچوں کی صحت کے معاملے پر کوئی خطرہ نہ مول لیا جائے۔
وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق متفقہ طور پر تمام فیصلے کیے گئے ہیں۔
ان کے خیال میں ان فیصلوں سے بچوں کا قیمتی سال ضائع نہیں ہوگا اور وہ اپنے تعلیمی سلسلے جاری رکھ سکیں گے۔
وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے اس فیصلے سے جہاں وہ صوبے متفق نظر آتے ہیں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وہیں صوبہ سندھ بھی اس پالیسی سے اتفاق کر رہا ہے جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔
'موجودہ حالات غیر معمولی ہیں'
سندھ کے صوبائی وزیر برائے تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ تمام صوبوں نے ان نکات پر اتفاق کیا ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ موجودہ حالات غیر معمولی ہیں اور اس اقدام سے کچھ مسائل ضرور آئیں گے۔ اس لیے اس کے حل کے لیے کمیٹی کا وقتا فوقتاً اجلاس ہوتا رہے گا۔
وزیر تعلیم سندھ نے بتایا کہ اس حوالے سے جامعات اور ہایئر سیکنڈری بورڈز سے بھی رابطے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح میڈیکل اور انجینئرنگ کے داخلوں اور ٹیکنیکل بورڈز کو بھی کرونا سے پیدا شدہ صورت حال میں آن بورڈ لیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیمبرج سسٹم کے تحت امتحانات دینے والے ہزاروں بچوں کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے ہی امتحانات ملتوی کیے جا چکے ہیں اور اسکول زرلٹس کی بنیاد پر ہی وہاں سرٹیفیکیٹ دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق وہ امتحانات لینے والے برٹش کونسل پر پرائیویٹ طلبہ کے مسائل کو بھی حل کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
دوسری جانب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے برعکس پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات میں طلبہ کو پروموٹ کرنے کے برعکس تمام جامعات کی انتظامیہ کو ہدایات دی ہیں کہ وہ نئے داخلوں اور امتحانات سے متعلق پالیسی تیار کرلیں۔
پست معیار تعلیم کے باعث بغیر امتحانات کے طلبہ کو پاس کرنے کے نتائج منفی نکلیں گے: ماہرین
دوسری جانب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر طلبہ کو بغیر امتحان کے ترقی دینے کے حکومتی اعلان پر ماہرین مختلف شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
سابق چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی انوار احمد زئی طلبہ کو بغیر امتحانات کے ترقی دینے سے متفق نظر نہیں آتے۔
انوار احمد زئی کا کہنا تھا کہ وبا کے باعث طلبہ کتابوں سے دور ہوئے ہیں جس سے ان کی تعلیم پر منفی اثر پڑا ہے۔
ان کے مطابق ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے بھی واضح طور پر بغیر امتحانات کے بچوں کو پاس کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ جامعات میں بغیر امتحان کے طلبہ کو پاس کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ بچے جو پروموشن لے کر جامعات کا رخ کریں گے انہیں رعایت یافتہ سمجھا جائے گا اور اگر اس سے روگردانی کی گئی تو اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔
انوار احمد زئی کا کہنا ہے کہ ایسے میں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے امتحانات کو ضروری سمجھا جا رہا ہے تو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے لیول پر بھی امتحانات ناگزیر ہیں جب کہ مختلف بورڈز کے قوانین بھی انہیں کسی بھی قسم کی پروموشن سے روکتے ہیں۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ یہ ترقی قانون میں تبدیلی لائے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے دیکھنا یہ ہوگا کہ صوبائی حکومتیں اور وفاق اس بارے میں قانون میں کیا تبدیلیاں لاتے ہیں۔
ان کے مطابق اس مشکل صورت حال میں بھی سماجی فاصلے کے باعث لازمی مضامین ہی کے آن لائن امتحانات لے لیے جائیں تو اس میں کوئی عار نہیں ہے۔
'فاصلاتی تعلیم تو دی جاسکتی ہے، صلاحیتوں کا اندازہ لگانا ممکن نہیں'
لیکن ایک اور ماہر تعلیم ڈاکٹر ایاز حیدر کے مطابق آن لائن امتحانات کے بجائے روایتی طریقے سے منعقد ہونے والے امتحانات ہی لینا ضروری ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح بچے کی صلاحیت کا ٹھیک طور پر اندازہ لگایا جاسکے گا اور اس کے لیے سماجی فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے امتحانات کے انعقاد کے اقدامات کیے جائیں لیکن پرچہ امتحان میں تفصیلی سوالات کے بجائے مختصر سوالات اور ایم سی کیوز کی تعداد بڑھائی جا سکتا ہے تا کہ پرچہ حل کرنے میں کم وقت صرف ہو۔
ان کے خیال میں فاصلاتی تعلیم تو دی جاسکتی ہے لیکن فاصلاتی طور پر کسی کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانا بہت زیادہ ممکن نہیں۔
ڈاکٹر ایاز حیدر کے مطابق پروموشن دینے کے اعلان سے نالائق طلبہ کے وارے نیارے ہوگئے ہیں جب کہ لائق طلبہ کا حق مجروح ہوا ہے۔
وہ بھی اس خیال سے متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پست معیار تعلیم اور دیگر عوامل کے باعث بغیر امتحانات کے طلبہ کو پاس کرنے کے نتائج مستقبل میں منفی نکلیں گے۔