برا ہو اس کرونا وائرس کا، اس نے سکول کالج، دفاتر، کاروبار سب بند کر دئیے ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے اور ایک دوسرے سے جدا رہنے کا موقعہ نہ رہا۔ وہ جو کام کی وجہ سے کچھ گھنٹے الگ الگ گزارتے تھے، گھر میں ہر دم ساتھ رہنے پر مجبور ہوئے۔ 'مجبور' کا لفظ شائد آپ کو عجیب لگے مگر بعض گھروں پر یہ صادق آتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ڈومیسٹک وائلینس کے الفاظ گوگل پر ڈال کر دیکھ لیجئے روح فرسا داستانیں کھل جائیں گی۔
بیٹی رخصت کرتے وقت والدین اکثر یہی کہتے ہیں شوہر کے گھر سے مرکر ہی نکلنا۔ شاید زمانے کی جدت میں یہ الفاظ دقیانوسی لگیں، مگر دل میں خواہش ہر ماں باپ کی یہی ہوتی ہے کہ بیٹی سدا اپنے گھر میں بسی رہے۔ اور اسی کوشش میں بیٹی اپنا گھر بچاتے بچاتے زندگی گزار دیتی ہے، حالانکہ گھر اس کا شاید ہوتا ہی نہیں ہے۔ پہلے ماں باپ کا اور پھر شوہر کا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بعض صورتوں میں شوہر مطلق العنان حاکم کی طرح اپنے ہر حکم کی تعمیل چاہتا ہے اور اس تعمیل میں معمولی کمی اسے سیخ پا کر دیتی ہے۔ اور اگر ایک مرتبہ بیوی پر ہاتھ اُٹھ جائے تو پھر یہ سلسلہ رکتا ہی نہیں۔
بات گھر سے باہر نکلے تو گھریلو تشدد کہلاتی ہے ورنہ میاں بیوی کا معاملہ۔ کیونکہ ایک تحقیق کے مطابق، دنیا بھر میں ایسے پچاس فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
کرونا وائرس کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو ایک آزار میں مبتلا کر رکھا ہے وہیں اقوامِ متحدہ کے عہدیداروں کے الفاظ میں گھریلو تشدد کی "شیڈو پینڈیمک" میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
کووڈ 19 کی وبا سے پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی تھی۔ یہ تعداد پاکستان میں اور بھی فکرمندی کا باعث ہے۔ فرزانہ باری کے مطابق، پاکستان میں ہر تیسری عورت گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔
ڈاکٹر فرزانہ باری قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی ڈئیریکٹر رہ چکی ہیں اور انسانی اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کا رکن ہیں۔
وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے انہون نے کہا کہ ’’اس لاک ڈاؤن میں گھریلو تشدد میں یقیناً اضافہ ہوا ہے اور ان کیلئے الجھن کا باعث یہ ہے کی اس تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو قانونی مدد حاصل کرنے کا بھی کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ گھر سے نکلنا بھی چاہیں تو انہیں کوئی سواری نہیں مل سکتی۔‘‘
وہ کہتی ہیں پاکستان میں اس تشدد کے خلاف قوانین کی موجودگی کے باوجود متاثرہ خواتین انصاف حاصل نہیں کر پاتیں اور اگر کرونا وائرس کی وبا میں زندگی ان پر تنگ کر دی گئی ہو تو وہ کسی شیلٹر ہوم تک بھی نہیں پہنچ سکتیں، کیونکہ ایک عورت تنہا اپنی مدد نہیں کر سکتی۔ جانا تو اسے کسی اور کےساتھ ہی پڑتا ہے۔
’’لڑائی جھگڑے ان گھروں میں زیادہ ہو تے ہیں جہاں مالی مشکلات ہوں اور کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے گھروں میں بند ہونے کا زیادہ اثر غریبوں پر ہوا ہے۔‘‘
ان خیالات کا اظہار جسٹس ہیلپ لائن آف پاکستان کے صدر ایڈووکیٹ ندیم شیخ نے کراچی سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک ڈیڑھ کمرے کے مکان میں رہنے والے جہاں ایک کمانے والا اور بیس کھانے والے ہوں، وہاں لاک ڈاؤن اور روزگار بند ہونے کی صورت میں گھریلو جھگڑے نہیں تو اور کیا ہوگا؟‘‘
انہوں نے بتایا کہ وہ عدالت میں موجود تھے اور انہیں مسلسل فون آرہے تھے۔ گھریلو ناچاقی میں اضافے کا یہ عالم تھا کہ ہر ایک گھنٹے بعد طلاق اور خلع کے کیسز آرہے تھے۔ وہ کہتے ہیں گھر میں بند ہو کر انسان الجھنوں کا شکار تو ہوتا ہے لیکن ہمیں اپنی ان خواتین کو ضرور داد دینی چاہیئے جنہوں نے اپنی اچھی تربیت اور مشرقی روایات کا بھرم رکھا ہے اور ضبط و تحمل سے کام لیا ہے۔
ضبط سے کام لینے کا مشورہ مہر رحمان بھی ان خواتین کو دیتی ہیں جو شکاگو میں فلاحی ادارے 'اپنا گھر' کو فون پر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی داستان سناتی ہیں۔ مہر رحمان 'اپنا گھر' کی پروگرام مینیجر ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’’کرونا وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں گھریلو مسائل کی شکار خواتین کے فون زیادہ آنے لگے ہیں۔ ان کا ادارہ ایسی خواتین کی مدد کرتا ہے جو نہ صرف امریکہ میں مقامی طور پر یا پاکستان بھارت اور دیگر ممالک سے بیاہ کر امریکہ لائے جانے کے بعد شوہر یا سسرال والوں کے ناروا سلوک کا نشانہ بنتی ہیں اور بعض اوقات قانونی طور پر امریکہ میں رہنے کی ان کی دستاویزات بھی مکمل نہیں ہوتیں اور وہ عدم تحفظ کا بھی شکار ہوتی ہیں''۔
مہر رحمان کہتی ہیں لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں ایسی خواتین کی ای میلز، ٹیکسٹ میسیجز اور واٹس اپ پیغامات زیادہ آ رہے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ادارہ ہر صورت ان خواتین کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ضرورت پڑے تو انہیں لیگل مدد گار بھی مہیا کرتا ہے۔
ایسی مدد تو خود حکومتوں کو بھی کرنی چاہیئے اور اقوامِ متحدہ نے اس جانب توجہ بھی دلائی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹی جنرل انتونیو گتریس نے حال ہی میں کہا ہے کہ "گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میں جبکہ اقتصادی اور معاشرتی دباؤ اور خوف بڑھا ہے، ہم نے گھریلو تشدد میں خوف ناک اضافہ دیکھا ہے۔ اور بعض ممالک میں مدد کے لیئے پکارنے والی خواتین کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔"
انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹتے وقت خواتین کے تحفظ کو اوّلین ترجیح دیں۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیدار اسے "شیڈو پینڈیمک" کا نام دے رہے ہیں۔ گویا یہ بھی کسی وبا سے کم نہیں۔ چنانچہ، جسٹس ہیلپ لائن کے صدر ندیم شیخ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کو ان ملکوں کی ضرور مدد کرنی چاہیئے جہاں غربت زیادہ ہے اور گھریلو تشدد کے مرتکب افراد کا ڈیٹا مرتب کرنا چاہیئے، تاکہ ایسے لوگ قانون کی گرفت میں آسکیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ بعض صورتوں میں قانون گھریلو معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور کرونا وائرس کی وبا سے جو ہنگامی حالات پیدا ہوئے ہیں ان میں تو قانون سازی بلکل نہیں ہو رہی۔ لیکن، اگر کوئی خاتون کسی وکیل کے ذریعے یا ہیلپ لائن کے ذریعے مدد حاصل کرنا چاہتی ہے تو معاملہ عدالت تک پہنچ جاتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں ہی نہیں بلکہ اس وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی حکومتوں کو کچھ ایسی پالیسیاں ضروری بنانی چاہئیں جو گھر کے یونٹ کو پریشانیوں اور الجھنوں کا مرکز نہ بننے دیں، بلکہ صحیح معنوں میں گھر سکون اور امن کا گہوارہ کہلا سکے۔