کرونا وائرس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ زندگی لاک ڈاؤن میں چلی گئی۔ سماجی فاصلے کی پابندی نے رشتوں کو دوردور سے مسکرانے تک محدود کر دیا۔ مگر اس پورے عرصے میں والدین کیلئے ایک بات اطمینان کا باعث رہی کہ اس وائرس سے بچے متاثر نہیں ہو رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن، جب اعداد و شمار جمع کئے گئے تو پتا چلا کہ بچے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہے۔ بلکہ ایک سے سترہ سال تک کے بچوں میں بھی کرونا وائرس کے کیسز رپورٹ کئے گئے۔ البتہ، ان میں علامتیں اتنی شدید نہیں تھیں جتنی کہ اٹھارہ سے چونسٹھ برس کے لوگوں میں نظر آئیں۔
ڈاکٹر خوشنود احمد امریکی ریاست ٹیکسس میں یونیورسٹی آف ٹیکسس کے آرجی وی سکول آف میڈیسن میں اسسٹنٹ پروفیسر آف کلینیکل پیڈیاٹرکس ہیں اور پلانو ٹیکسس میں چلڈرن میڈیکل سنٹر میں بچوں کے ایمرجنسی کے شعبے میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کرونا وائرس سے بچے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ مگر ان میں علامتیں زیادہ شدید نہیں رہیں۔ زیادہ تر فلو کی علامات کے ساتھ ہسپتال آئے اور کرونا کا ٹیسٹ کیا گیا تو پازیٹیو آیا۔
امریکی نیٹ ورک سی این این کے مطابق، برطانیہ میں پیڈیٹرک انٹینسیو کیئر سوسائٹی نے نیشنل ہیلتھ سروس انگلینڈ کے حوالے سے خبردار کیا ہے کہ بچوں میں ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں کچھ ایسی علامتیں پائی گئی ہیں کہ جو ان کے جسم میں خون کے نظام کے ساتھ دیگر اعضا کو بھی متاثر کر رہی ہیں اور بچوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھنا پڑ رہا ہے۔
اس میں بچوں کی عمر کا تعین نہیں کیا گیا۔ البتہ، کہا گیا کہ ہر عمر کے بچے متاثر ہو رہے ہیں اور ان میں سے بعض کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آیا ہے۔
ڈاکٹر خوشنود احمد نے اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی جو وائرس پھیلے، ان سے بچے متاثر ہوئے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ البتہ، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ کسی بھی وائرس کے خلاف بچے ایسا ہی ردّعمل ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے بتا یا کہ ڈیلس اور پلینو ٹیکسس میں جس میڈیکل سنٹر میں وہ کام کر رہے ہیں وہ دنیا میں بچوں کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہاں جو بچے لائے جا رہے ہیں ان میں سے بہت کم تعداد ایسے بچوں کی ہے جن کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے، کیونکہ یہ ٹیسٹ صرف ان بچوں کا کیا جا رہا ہے جو سانس کی کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال لائے گئے۔
برطانیہ میں بچوں میں ظاہر ہونے والے مرض کے بارے میں ڈاکٹر خوشنود کا کہنا تھا کہ کسی وائرس کے بچے میں داخل ہونے پر بچے کا جسم جس طرح اس کے خلاف ردّعمل ظاہر کرتا ہے وہ بچے کے خون کے نظام یا دیگر اعضا کو متاثر کرتا ہے اور یہی برطانیہ میں بھی ظاہر ہوا ہے۔
البتہ، وہ کہتے ہیں کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ موجودہ صورتِ حال کرونا وائرس کی وجہ سے ہے یا کوئی اور وجہ ہے، کیونکہ ان کے ہسپتال میں اکثر ایسے بچے آتے ہیں جن کو دل کی یا خون کی نالیوں کی کوئی بیماری ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری نہیں کہ ایسا کووڈ 19 کی وجہ سے ہو رہا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہزاروں وائرس ہیں اس لئے یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ یہ کووڈ 19 ہی ہے، تاکہ اس کے مطابق علاج کیا جائے۔
ڈاکٹر خوشنود نے بتایا کہ اب تک جتنے بچے ان کے ہسپتال میں کرونا سے متاثر لائے گئے تھے وہ سب صحتیاب ہو کر جا چکے ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ بچوں کے لئے بھی وہی احتیاطی تدابیر ضروری ہیں جو بڑوں کے لئے دنیا بھر میں بتائی گئی ہیں۔ یعنی ہاتھ دھونا، دوسروں سے فاصلہ رکھنا اور ماسک پہننا، کیونکہ بچے یہ وائرس اپنے بڑوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔