افغان مسئلے کا حل بات چیت ہی سے ممکن ہے: دفتر خارجہ

پاکستان کا کہنا ہےکہ افغان مسئلہ کا حل جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور افغان طالبان کو مذکرات کی میز پر لانا افغان مسئلے سے متعلق تمام فریقوں کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے رواں ہفتے کابل کے دورے کے بعد سامنے آیا ہے، جب انہوں نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرے۔

جعرات کو دفتر خارجہ کی معمول کی پریس بریفنگ کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ پومیپو کے بیان پر براہ راست کوئی تبصرہ کیے بغیر ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان افغانوں کی قیادت میں ہونے والے امن و مصالحت کے عمل کی حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان کے سلسلے میں ہم نے پہلے بھی کہا اور ہم ’افغانستان پاکستان ایکشن پلان فور پیس اینڈ سولیڈریٹی‘ کے لائحہ عمل کے تحت بنائے گئے پانچ ورکنگ گروپ کے ذریعے کابل کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ افغانستان کے تنازع کا حل بات چیت سے نکلے گا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ"ہم (پاکستان) پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ فوجی حل ناکام ہو چکا ہے۔ اس لیے اس معاملے کا حل افغانوں کی قیادت میں ہونے والےامن عمل میں ہے۔ اس میں تمام لوگ (فریق) اپنا کردار ادا کریں، تاکہ ہم کسی معاملے تک پہنچ سکیں۔"

افغان صدر اشرف غنی کی پرامن مذاکرات کی پیش کس کے باوجود طالبان اسے یہ کہہ کر قبول کرنے سےانکار کرتے آ رہے ہیں کہ جب تک بین الاقوامی فورسز افغانستان میں موجود ہیں وہ بات چیت کے عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔

دوسری طرف طالبان کی مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں اعلیٰ امریکی عہدیداروں کی کابل اور اسلام آباد کے دورے انہی کوششوں کا حصہ ہیں اور حال میں سینئر امریکی سفارت کار ایلس ویلز کا دورہ بھی شامل ہے اور دفتر خارجہ کے ترجمان ایلس ویلز کے حال ہی میں ہونےوالے اسلام آباد کے دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان اور امریکہ کے درمیان بات چیت ہر سطح پر جاری ہے اور ادارتی سطح کے رابطے بھی جاری ہیں اسی سلسلے میں ایلس ویلز نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس دورے کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ تاہم انہوں ںے کہا بات چیت کا جاری رہنا دونوں ملکوں کے آگے پیش رفت کرنے کے عزم کی مظہر ہے۔"

واشنگٹن کی خواہش ہے کہ اسلام آباد ان پر اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر لائے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پاک امریکہ رابطے بھی طالبان کو مذکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ ماضی کی نسبت افغان طالبان پر اسلام آباد کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔ لیکن، افغانستان اور امریکہ پاکستان کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔