صدارتی انتخابات اور نوجوانوں کی آراء

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں میں مسٹر اوباما زیادہ مقبول ہیں، لیکن اس کا فائدہ اسی وقت ہو گا جب نوجوان باہر نکلیں اور ووٹ ڈالنے جائیں۔
چار سال قبل، صدر براک اوباما کی فتح کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نوجوانوں نے انہیں بھاری تعداد میں ووٹ دیے تھے ۔ لیکن اس بار ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو نوجوان ووٹروں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے ۔ نوجوان شہری اقتصادی مسائل کی وجہ سے بھی پریشان ہیں۔ ریپبلیکنز نے اپنے قومی کنونشن میں کہا کہ ان کے صدارتی امیدوار، مِٹ رومنی، معیشت کو بحال کر سکتے ہیں۔


بدھ کے روز ریپبلیکنز ٹمپا میں کنونشن کے لیے جمع تھے اور صدر اوباما نے یونیورسٹی آف ورجینیا کے طالب علموں کو خطاب کیا جنھوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ صدر اوباما نے کہا’’صرف نعرے نہ لگائَیے، آپ کو ووٹ بھی دینا ہے!‘‘

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں میں مسٹر اوباما زیادہ مقبول ہیں، لیکن اس کا فائدہ اسی وقت ہو گا جب نوجوان باہر نکلیں اور ووٹ ڈالنے جائیں۔

اس ہفتے یونیورسٹی آف ٹمپا میں پیٹرک کریڈون جیسے طالب علموں نے پہلی بار ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹریشن کرایا ہے ۔ انھوں نے کہا’’میں ووٹ ڈالنے جاؤں گا اور میرا ووٹ اوباما کے لیے ہو گا۔‘‘

کریڈون کہتے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹس کو پسند کرتے ہیں کیوں کہ وہ سماجی مسائل میں، جیسے ہم جنسوں کے درمیان شادی کے بارے میں، ان کے موقف کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ ریپبلیکنز کے ان منصوبوں کو بھی پسند نہیں کرتے کہ میڈی کیئر جیسے پروگرام تبدیل کر دیے جائیں جن سے بڑی عمر کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں ملتی ہیں۔

لیکن یونیورسٹی آف ٹمپا کے طالب علموں کی انجمن کے صدر مٹ رٹکووٹز کہتے ہیں کہ ان کے بیشتر ہم عصر ساتھیوں کو میڈی کیئر جیسے مسائل میں دلچسپی نہیں ہے ۔
’’طالب علموں کو اس بارے میں پریشانی نہیں ہے کہ جب وہ 50, 60 یا 70 برس کے ہو جائیں گے تو کیا ہو گا، اور میرے خیال میں میڈی کیئر اور میڈی کیڈ آج کل کے طالب علموں کے لیے اہم موضوع نہیں ہیں۔

نوجوانوں میں برداشت کا مادہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ ان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے جن کے خیالات مختلف ہوتےہیں۔ ‘‘

امانی کرز کہتی ہیں کہ وہ اپنے ساتھی طالب علموں سے سیاسی بحث کرنے سے بچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے ۔ میں یہ نہیں چاہوں گی کہ کوئی اپنی رائے مجھ پر مسلط کرے، اور نہ ہی میں اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنا چاہتی ہوں۔‘‘

لیکن بہت سے نوجوان سیاسی طور پر سرگرم ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس ہفتے سینکڑوں طالب علم ٹمپا کی سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے ریپبلیکن پالیسیوں کی مذمت کی۔

کنونشن ہال کے اندر بیشتر ڈیلی گیٹس پختہ خیالات رکھنے والے بالغ افراد ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی پارٹیوں کے لیے برسوں کام کیا ہے۔ لیکن کبھی کبھی کوئی نوجوان چہرہ بھی نظر آ جاتا ہے۔

کنونشن میں آنے والے سب سے کم عمر ڈیلی گیٹس میں 18 سالہ ہملٹن زیکاریہز بھی شامل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی عمر کے بہت سے نوجوانوں کو اوباما سے مایوسی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’میرا خیال ہے کہ نوجوان دیکھیں گے کہ انہیں کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کی مرضی کے جاب نہیں مل رہے ہیں اور ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے ۔ میرے خیال میں بہت سے نوجوان ووٹرز یہ دیکھنا چاہیں گے کہ رومنی ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‘‘

ہملٹن کے والد بیری زیکاریہز بھارت سے آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ایک دن آ سکتا ہے جب ان کا بیٹا کسی عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑے گا۔ ’’یہاں آپ جو چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ آخر ، یہ امریکہ ہے ۔‘‘

اور بلا شبہ اگلے ہفتے جب یہ ریپبلیکنز اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہوں گے، تو ڈیموکریٹک کنونشن میں، دوسرے نوجوان سیاسی کارکنوں کے والدین ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں حصہ لیں گے ۔