ایک سے زیادہ شادیاں ممنوع: اتراکھنڈ کے نئے قانونی مسودے پر تنازع

بھارتی مسلمانوں کے ایک متحدہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ نے ریاست اتراکھنڈ کی حکومت کی جانب سے اسمبلی میں پیش کیے جانے والے ’یونیفارم سول کوڈ بل‘ کی مخالفت کی ہے۔

ان کے مطابق یہ بل 2024 کے پارلیمانی انتخابات کو سامنے رکھ کر پیش کیا گیا ہے۔

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے پیر کو ریاستی اسمبلی میں مذکورہ بل کا مسودہ پیش کیا اور کہا کہ یہ بل نہ صرف سماج کے تمام طبقات کے مفاد میں ہے بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ یعنی سب کی ترقی کے تصور سے مطابقت رکھتا ہے۔

وزیرِاعظم نریندر مودی نے قبل ازیں اپنی ایک تقریر میں ملک میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر زور دیا تھا۔ یو سی سی بی جے پی کے تین اہم انتخابی ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔

واضح رہے کہ اس بل میں شادی، طلاق اور وراثت سمیت متعدد امور میں یکسانیت لانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس میں تعدد ازواج یعنی ایک سے زائد بیوی رکھنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے شادی کی یکساں عمر کا انتظام کیا گیا ہے۔

حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے اس بل کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے توسط سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں قانون کے تحت لایا جا رہا ہے تاکہ کسی کے ساتھ امتیاز نہ ہو سکے۔

اترا کھنڈ کے بی جے پی رکن اسمبلی شیو اروڑہ نے بل کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا۔

انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ قانون تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ ان کے مطابق آئین کی دفعہ 44 میں یو سی سی کا ذکر کیا گیا تھا لیکن ابھی تک اسے نافذ نہیں کیا گیا تھا۔

ان کے بقول یہ بل کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ جب کوئی چار شادیاں کرتا ہے تو ہماری مسلم بہنوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ اس بل کا مقصد اس ظلم کو ختم کرنا بھی ہے۔

انھوں نے کانگریس کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے اس نے ملک میں یونیفارم سول کوڈ نافذ نہیں کیا۔ لیکن اب اتراکھنڈ میں یہ قانون نافذ ہونے جا رہا ہے۔ اب سب کو مساوی حقوق ملیں گے۔

ایک اور بی جے پی رکن اسمبلی گوپال شرما کے مطابق اس بل سے ہر شخص قومیت کے جذبے سے سرشار ہے۔ یہ ہمارا خواب تھا جسے پورا کیا گیا ہے۔

ادھر راجستھان کی بی جے پی حکومت کے ایک وزیر کنھیا لال نے بل کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اس سے قوانین کے نفاذ میں یکسانیت آئے گی۔ ایک ملک میں دو قوانین نہیں چل سکتے۔ راجستھان میں بھی یو سی سی لایا جائے گا۔

بی جے پی کی دیگر ریاستی حکومتوں نے بھی اپنے یہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

مسلم کمیونٹی کے تحفظات

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطابق یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) ملک کی تکثیریت کے منافی ہے۔ بھارت کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ اگر اس قسم کا کوئی قانون نافذ کیا جاتا ہے تو اس سے ملک کی تکثیریت تباہ ہو جائے گی۔

بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ اس بل کے توسط سے عوام پر اکثریت کا نقطہ نظر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت نے ہندو مذہب کو ذہن میں رکھ کر اس کا مسودہ تیار کیا ہے اور اسے سب پر نافذ کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ یہ بل اسلامی قوانین کے منافی ہے۔ مسلمانوں کی شناخت ان کے مذہب سے ہوتی ہے۔ مذہبی شناخت کی تعریف مذہبی قوانین کرتے ہیں۔ اگر آپ ان کے مذہبی قوانین ختم کرتے ہیں تو ان کی مذہبی شناخت ختم ہو جائے گی۔

ان کے مطابق اس بل میں بہت زیادہ تضاد ہے۔ کہنے کو تو یہ یونیفارم سول کوڈ ہے لیکن اس میں ہندوؤں کو بہت سے معاملات میں چھوٹ دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے قبائلیوں کو الگ رکھا گیا ہے۔ جب کہ ریاست میں قبائلیوں کی بہت بڑی آبادی ہے۔ ان کو مستثنیٰ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بہت بڑے طبقے کو اس سے نکال دیا گیا۔ ان کے مطابق اس بل کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے عائلی قوانین کو مضبوط کرنے والا شریعت اپلی کیشن ایکٹ مرکزی حکومت کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اگر کوئی ریاست ایسا کوئی قانون بناتی ہے تو وہ مرکزی قانون کے تابع ہونا چاہیے منافی نہیں۔ یہ قانون اس مرکزی قانون کے خلاف ہے۔

'مسلمانوں میں خوف بڑھے گا'

جماعت اسلامی ہند نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ جماعت کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر کے مطابق بھارت جیسے ملک میں یو سی سی ممکن ہی نہیں جہاں کہ بے شمار عقائد، ثقافت، تہذیب، زبان اور کلچر کے لوگ اور نسلی گروپ رہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یو سی سی عوام کو مذہب کے نام پر گروپ بند کرنے کے لیے لایا گیا ہے تاکہ اس سے انتخابی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے اس کے باوجود یو سی سی لایا گیا۔ اس سے ریاست کے مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا ہوگا۔

’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کے مطابق ’یہ یونیفارم سول کوڈ نہیں بلکہ ہندو کوڈ ہے۔ اسے مسلمانوں کو دوسروں کے مذہب اور ثقافت کو اختیار کرنے کے لیے لاگیا ہے جو کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے منافی ہے‘۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان کے مطابق اگر اس بل کی دفعات آئین میں اقلیتوں کو دی گئی مذہبی آزادی سے متصادم ہوں گی تو انھیں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 44 میں جس یونیفارم سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے وہ پورے ملک کے لیے ہے کسی خاص ریاست یا علاقے کے لیے نہیں ہے۔ ایسا کوئی قانون مرکزی حکومت ہی لا سکتی ہے ریاستی حکومت نہیں۔ ریاستی حکومت پیش کرے گی تو پھر یہ ریاستی قانون ہوا ملک گیر قانون نہیں۔

سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل گیاننت سنگھ کے مطابق ملک کی آئین ساز اسمبلی میں یونیفارم سول کوڈ کا معاملہ اٹھا تھا جس پر آئین میں دفعہ 44 جوڑی گئی۔ لیکن اس وقت کہا گیا تھا کہ ابھی اس کے نفاذ کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔

بل میں مزید کیا ہے؟

مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کی موت کے بعد اس کی ملکیت میں بیوی یا شوہر اور اولاد کا حق مساوی ہو گا۔ متوفی کے والدین کو بھی مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ اسلامی قوانین کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دفعہ متوفی کے ترکے کی تقسیم کے اسلامی قانون کے منافی ہے۔

بل میں بیٹے اور بیٹی کو املاک میں برابر حق دیا گیا ہے۔ جب کہ اسلامی شریعت کے مطابق ترکے میں بیٹے کو دو حصہ اور بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ کیوں کہ بیٹی شادی کے بعد دوسرے کے گھر جائے گی تو اسے وہاں بھی حق ملے گا۔

کثرت ازواج اور کم عمری کی شادی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ حلالہ اور عدت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مردوں کی شادی کی عمر 21 اور عورتوں کی 18 رکھی گئی ہے۔