پاکستان کے نئے 'سیاسی نقشے' میں جونا گڑھ کیوں ہے؟

جونا گڑھ میں واقع مہابت مقبرہ جو ریاست کے حکمرانوں کے محل کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

رواں ماہ چار اگست کو پاکستان کی جانب سے اپنے نئے "سیاسی نقشے" کے اجرا اور اس میں ریاست جونا گڑھ کو دوبارہ اپنا حصہ قرار دینے کے دعوے سے ایک بار پھر اس ریاست کے ماضی، حال اور مستقبل پر بحث چھڑ گئی ہے۔

اس ریاست کو پاکستان 1974 سے قبل بھی اپنا حصہ قرار دیتا آیا تھا لیکن بھارت کے ساتھ ہونے والے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان نے اسے اپنے سرکاری نقشے میں ظاہر کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اب ایک بار پھر جوناگڑھ کو پاکستان کے نقشے میں شامل کیا گیا ہے۔

ریاست جونا گڑھ کہاں تھی؟

ریاست جونا گڑھ کے شاہی خاندان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ مغل بادشاہوں کے قریب اور ان کی فوج میں کمان دار اور بعض علاقوں کے گورنر بھی رہے۔

مغل بادشاہ ہمایوں نے جب شیر شاہ سوری سے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا تو اپنے کمان دار عثمان خانداری کو جوناگڑھ کے علاقے میں انعام و اکرام کے طور پر جاگیریں عطا کیں۔ بعد ازاں اس جاگیر کو 1735 میں بہادر خان بابی نے خود مختار ریاست کا درجہ دے دیا۔

برصغیر میں انگریزوں کی حکمرانی کے بعد بھی جوناگڑھ اور انگریزوں کے درمیان بعض معاہدوں کی صورت میں اس ریاست کی خود مختار حیثیت برقرار رکھی گئی۔

جونا گڑھ تقسیمِ ہند کے وقت ہندوستان کے جزیرہ نما کاٹھیاوار پر تین ہزار 337 مربع میل پر پھیلی ایک شاہی ریاست تھی۔

کتاب 'دا برٹش راج ان انڈیا' کے مطابق تقسیمِ ہند کے وقت جونا گڑھ کی آبادی تقریباً سات لاکھ تھی جس میں 80 فی صد ہندو تھے۔

لیکن اس ریاست کے حکمران مسلمان تھے۔ یاد رہے کہ یہ ان تین ریاستوں میں سے ایک تھی جس نے 15 اگست 1947 تک پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔

دیگر دو ریاستیں حیدرآباد دکن اور کشمیر کی تھیں۔ اگرچہ زمین کے لحاظ سے یہ ریاست بھارت کے ساتھ منسلک تھی مگر ریاستی بندرگاہ ویراول اور کراچی کے درمیان سمندری فاصلہ صرف 300 میل کا تھا۔

جونا گڑھ کے حکمران نے کیا فیصلہ کیا تھا؟

مؤرخین کے مطابق انڈین نیشنل کانگریس کے رہنماؤں کا گمان تھا کہ ریاست کے والی بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں گے، لیکن جوناگڑھ کے نواب مہابت خان نے قانون آزادی ہند 1947 کے تحت پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔

پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے پانچ ستمبر 1947 کو اس کی منظوری دی اور ملک کی قانون ساز اسمبلی نے بھی ریاست کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 13 ستمبر کو حکومتِ پاکستان نے باضابطہ طور پر اپنے فیصلے سے بھارت کو آگاہ کیا۔

ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح سے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور اسے تقسیمِ ہند کے لیے ہونے والے متفقہ ضابطے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ کیوں کہ تقسیم ہند کے دوران ریاستوں کے الحاق کے دوران جغرافیائی ربط کو بھی اہم نکتہ قرار دیا گیا تھا۔

تاہم بہت سے مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس ضابطے کی آزادیٔ ہند قانون مجریہ 1947 کے تحت کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی اور جوناگڑھ کے حکمرانوں کا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ قانونی طور پر ٹھیک تھا۔

البتہ ایک اور بھارتی سیاست دان اور کانگریس رہنما سردار ولبھ بھائی پٹیل کا اصرار تھا کہ ریاست کے الحاق کا فیصلہ حکمرانوں کی بجائے اس ریاست کے عوام کو کرنا چاہیے۔

'دا برٹش راج ان انڈیا' کے مصنفین لکھتے ہیں کہ 17 ستمبر 1947 کو بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے کابینہ کا اجلاس بلا کر اس مسئلے پر غور کیا۔ گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے انہیں پیغام بھجوایا کہ وہ ریاست کے خلاف فوجی ایکشن لینے سے گریز کریں کیوں کہ اس سے بھارت کا مؤقف غلط اور پاکستان کا صحیح ثابت ہو جائے گا۔

لہذٰا اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جوناگڑھ پر فوری فوجی چڑھائی کی بجائے اس کے ارد گرد کے علاقوں میں فوج تعینات کی جائے۔ اس طرح گھیراؤ کر کے ریاست کے حکمرانوں کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔

دوسری جانب 25 ستمبر کو ممبئی میں کاٹھیاوار سے تعلق رکھنے والے کانگریس رہنماؤں نے جوناگڑھ میں عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔

چھ اکتوبر کو بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کو کرنے کا حق ہے جس کے لیے یہاں استصوابِ رائے یا ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس نا امیدی کی صورتِ حال میں جوناگڑھ کے نواب مہابت خان کراچی آ گئے اور دو نومبر کو جوناگڑھ 'عارضی حکومت' کے حوالے کر دیا گیا۔ نو نومبر کو بھارتی فوج ریاست کے اندر داخل ہو گئی اور پھر انتظامی ذمہ داری بھارتی ریجنل کمشنر نے سنبھال لی۔

بعدازاں بھارتی حکام کی نگرانی میں فروری 1948 میں ہونے والے ریفرنڈم کا فیصلہ بھارت کے حق میں آیا اور یوں یہ ریاست بھارت میں شامل کر دی گئی۔

لیکن نواب مہابت خان کے پوتے اور خود کو اب بھی 'نواب آف جونا گڑھ' کہلانے والے نواب جہانگیر خانجی کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کرائے گئے ریفرنڈم کو ان کے دادا نے جو کہ اس وقت ریاست کے والی تھے، کبھی قبول نہیں کیا۔

نواب جہانگیر خانجی

اُن کے بقول یہ عمل تقسیمِ آزادیٔ ہند قانون کے خلاف تھا جس میں سینکڑوں ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں۔ تاہم جولائی 1947 میں برطانوی حکام نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی شاہی ریاست کو آزاد ریاست کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔ اس لیے ان ریاستوں کے پاس پاکستان یا بھارت سے الحاق کے علاہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق ایڈووکیٹ اور تاریخ دان سید سمیع احمد اپنی کتاب 'پاکستان کا سیاسی ارتقا اور فوج کے کردار' میں انگریز مصنف ایچ وی ہڈسن کی کتاب "دی گریٹ ڈیوائڈ" کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ ریاست جوناگڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق نے ہندوستان کو گومگو کی کیفیت سے دوچار کر دیا تھا۔

اُن کے بقول اگر ہندوستانی حکومت اسے خاموشی سے قبول کر لیتی تو اس مثال کا اطلاق اس سے کہیں بڑی ریاست حیدرآباد دکن پر بھی ہوتا۔ اگر ہندوستانی حکومت مداخلت کی غرض سے قوت کا استعمال کرتی تو اس کا یہ عمل بیرونِ ملک پسند نہ کیا جاتا۔

'پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، مستقبل میں الحاق بھی یقینی ہے'

نواب جہانگیر خانجی کہتے ہیں کہ نواب آف جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ اپنی ریاست کے الحاق کا معاہدہ اب بھی برقرار ہے اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہے۔

اُن کے بقول معاہدے میں ریاست کے حکمرانوں نے دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے امور پاکستان کی حکومت کے حوالے کیے تھے جب کہ باقی تمام امور میں ریاست خودمختار تھی۔

ان کے دعوے کے مطابق بھارتی حکومت نے تمام تر مروجہ بین الاقوامی قوانین، اصول اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور آزادیٔ ہند قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوناگڑھ کی ریاست کو غیر قانونی طور پر بھارت میں ضم کیا۔ جس کے خلاف انہوں نے اقوامِ متحدہ سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔

پاکستان کی جانب سے ریاست جونا گڑھ کو اپنے سیاسی نقشے میں ایک بار پھر شامل کرنے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ امید افزا بات ہے لیکن جونا گڑھ اس سے قبل بھی پاکستان کے نقشے میں شامل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 73 سال گزر جانے کے باوجود بھی وہ اور ان کا خاندان ریاست کے حقیقی قانونی وارث ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مستقبل میں ایک دن جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق ضرور ہو گا۔

ریاست جونا گڑھ کی سرکاری مہر

'جوناگڑھ کو پاکستان کا حصہ قرار دینا مضحکہ خیز ہے'

بھارت نے پاکستان کی جانب سے نئے 'سیاسی نقشے' کے اجرا کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق یہ نقشہ بھارت کی ریاستوں "گجرات اور کشمیر پر غیر مدلل دعووں کی مشق ہے جو سرحد پار دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے توسیع پسندانہ عزائم کی عکاس ہے۔"

بھارت کا کہنا ہے کہ اس مضحکہ خیز اقدام کی کوئی قانونی حیثیت یا بین الاقوامی ساکھ نہیں۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ حقائق کو مسخ کرنے سے بھارت غیر قانونی اور ناقابلِ قبول عمل سے اپنے اقدامات پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔