|
نئی دہلی -- بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایک ہی روز الیکشن کرانے کے بل 'ون نیشن ون الیکشن' بل کی مخالفت کر رہی ہیں۔
مرکزی وزیرِ قانون ارجن رام میگھوال نے منگل کو متنازع ’ون نیشن ون الیکشن‘ کا بل پارلیمان میں پیش کیا۔ لیکن ابھی اس پر بحث نہیں ہو سکی۔ مزید غور کے لیے اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
جہاں حکومت پارلیمانی اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی زبردست حامی ہے وہیں حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس کی پرزور مخالفت کر رہی ہیں۔
مبصرین کے مطابق اگر یہ بل منظور ہو گیا تو 2034 سے قبل ایک ساتھ انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔ تاہم جب بھی ہوں گے ملک میں ایک تاریخی تبدیلی واقع ہو گی۔
کیا یہ بی جے پی کا نیا ایجنڈا ہے؟
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے انتخابی ایجنڈے میں تین ایشوز سرِفہرست رہے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اور یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ۔
ماہرین کے مطابق حکومت اپنے ابتدائی دو ایجنڈے پورے کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اب وہ تیسرے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
سیاسی و صحافتی حلقوں میں جہاں اس سلسلے میں بہت سی باتیں زیرِ بحث ہیں وہیں اس پر بھی گفتگو ہو رہی ہے کہ کیا بی جے پی 'ون نیشن ون الیکشن' کے ذریعے نہ صرف مرکزی اقتدار پر بلکہ ریاستی حکومتوں پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
ان کے مطابق بل کی منظوری بی جے پی کی بہت بڑی جیت ہو گی۔
یاد رہے کہ ملک میں کل 28 ریاستیں اور آٹھ یونین ٹیریٹریز ہیں۔ پورے ملک میں تقریباً ایک ارب ووٹرز ہیں اور لگ بھگ پورے سال کہیں نہ کہیں الیکشن ہوتا رہتا ہے۔
حکومت نے سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں 'ون نیشن ون الیکشن' کے سلسلے میں رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایک نو رکنی کمیٹی تشکیل کی تھی جس نے مارچ میں 18 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی۔
رپورٹ میں جہاں پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہر پانچ سال پر ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی گئی ہے وہیں اس نے عام انتخابات کے 100 دنوں کے اندر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے کی بھی سفارش کی ہے۔
بی جے پی 2014 میں مرکز میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ہی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے پر زور دیتی رہی ہے۔ اس نے اسے اپنے انتخابی منشور میں بھی شامل کر لیا ہے۔
پارلیمان میں دو آئینی ترمیمی بل پیش کیے گئے ہیں۔ پہلا لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ساتھ کرانا اور دوسرا یونین ٹیریٹریز میں ایک ساتھ الیکشن کرانا۔
آئینی ماہرین کے مطابق کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے آئین کی کم از کم پانچ دفعات میں ترمیم کرنا پڑے گی اور پورے ملک کے لیے ایک ووٹر لسٹ بنانی ہو گی۔
’حکومت مرکزی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے‘
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اس کے ذریعے پورے ملک کی سیاسی طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔ جب کہ بعض دیگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر یہ قانون منظور ہو گیا تو جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔
سینئر تجزیہ کار آنند کے سہائے کہتے ہیں کہ حکومت کا مقصد کسی بھی طرح مرکزی اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی ملک میں فرقہ واریت اور ہندو قوم پرستی کے جذبات ابھار کر جیت حاصل کرتی رہی ہے۔ 2014 اور 2019 میں اسی طرح اسے کامیابی ملی۔ لیکن 2024 کے انتخابات میں اسے پہلی جیسی کامیابی نہیں ملی۔
ان کے مطابق بی جے پی مرکز اور تمام ریاستوں پر ہی نہیں بلکہ پنچایتوں اور سول سوسائٹی پر بھی اپنی گرفت چاہتی ہے۔ اس کے لیے اس نے سول سوسائٹیز کی کئی تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ اس نے تعلیمی نظام پر بھی اپنا کنٹرول پا لیا ہے۔
ایک اور سینئر تجزیہ کار اوما کانت لکھیڑہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بل منظور ہو گیا تو ملک میں ڈکٹیٹرشپ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وفاقی نظام پہلے ہی کمزور ہو گیا ہے، اس سے وفاقیت کا خاتمہ ہی ہو جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بل کو منظور کرانے کے لیے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی۔ اگر حکمراں محاذ ’نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کے تمام ارکان ووٹ دیں تب بھی مزید ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ اضافی ارکان کی حمایت حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔
ادھر بل کے پارلیمان میں پیش کیے جانے کے بعد جب ووٹنگ ہوئی تو اس کے حق میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ کانگریس ارکان منیکم ٹیگور اور ششی تھرور نے کہا کہ بل کی حمایت میں 269 اور مخالفت میں 198 ووٹ پڑے۔
بی جے پی نے وہپ جاری کر کے تمام ارکان سے کہا تھا کہ وہ ووٹنگ کے وقت ایوان میں موجود رہیں لیکن مرکزی وزرا نتن گٹکری، گری راج کشور اور جیوترادتیہ سندھیا سمیت بی جے پی کے 20 ارکان غیر حاضر رہے۔ رپورٹس کے مطابق ان سب کو نوٹس بھیجا گیا ہے۔
منی کم ٹیوگور نے 'ایکس' پر لکھا کہ ووٹنگ کے دوران ایوان میں موجود 461 ارکان میں سے دو تہائی اکثریت کے لیے 307 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ یعنی بل دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
واضح رہے کہ بی جے پی اور اس کے حلیفوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 293 ہے۔ جب کہ اپوزیشن 'انڈیا' بلاک کے ارکان کی تعداد 234 ہے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ان پارٹیوں کی بھی حمایت درکار ہو گی جو نہ تو این ڈی اے میں ہیں اور نہ ہی انڈیا بلاک میں۔
ادھر بی جے پی کے ترجمان مخالفین کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ون نیشن ون الیکشن' سے ایک تو ملک کو ہمیشہ انتخابی ماحول میں نہیں رہنا ہو گا دوسرے قومی خزانے پر کم بوجھ پڑے گا۔
بل کے حامی کیا کہتے ہیں؟
یاد رہے کہ کووند کمیٹی نے 'ون نیشن ون الیکشن' کو گیم چینجر قرار دیتے ہوئے معاشی ماہرین کے حوالے سے کہا ہے کہ اس سے ملک کی قومی شرح نمو میں 1.5 فی صد کا اضافہ ہو گا۔
بل کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی کسی نہ کسی ریاست میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح سال کے 200-300 دن اس کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ جہاں اخراجات میں کمی آئے گی وہیں انتظامی اہل کاروں پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہو گا۔
اخبار ’اکانومک ٹائمز‘ کے مطابق صنعت و تجارت کے ادارے ’کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری‘ (سی آئی آئی) کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ انتخابات کرانا اگر چہ ایک چیلنج سے کم نہیں ہے لیکن اس سے اخراجات میں کمی آئے گی اور ملک کا فائدہ ہو گا۔
یاد رہے کہ کووند کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن کرانے کی صورت میں نئی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خرید کے لیے 92.84 ارب روپے کی ضرورت پڑے گی۔
مخالفین کیا کہتے ہیں؟
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کووند کمیٹی کہتی ہے کہ اس سے اخراجات میں کمی آئے گی تو پھر وہ نئی مشینوں کی خرید کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے، یہ کیوں نہیں بتاتی۔
بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے انتخابات کے دوران علاقائی مسائل پسِ پشت چلے جائیں گے کیوں کہ انتخابات قومی ایشوز پر ہوں گے۔ اس کے علاوہ چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں کے لیے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے لیے فنڈ کا حصول بہت مشکل ہو جائے گا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی ڈھانچہ کمزور ہوگا اور تمام تر سیاسی طاقت مرکز میں برسراقتدار جماعت کے ہاتھ میں سمٹ جائے گی۔