دھان کی باقیات کو کار آمد بنانے کا جدید منصوبہ

کسان عمومی طور پر دھان کی فصل کاشت کرنے کے بعد اس کی باقیات کو جلا دیتے ہیں جس کی وجہ سے فضا آلودہ ہوجاتی ہے۔ صبح کے اوقات میں اس قدر دھند ہوتی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔
 

پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکومت نے پہلی مرتبہ 15 اضلاع میں دھان کی باقیات کو کار آمد بنانے کی غرض سے رواں برس دو مشینیں متعارف کی ہیں۔ ہیپی رائس اسٹرا چاپر اور ہیپی سیڈر نامی یہ مشینیں دھان کے ٹھکانے لگانے کا کام بخوبی انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ 

رائس چاپر کے ذریعے دھان کی باقیات کو پہلے کاٹا جاتا ہے اور دوسری مشین کے ذریعے اسی وقت زمین میں گندم کی بوائی کی جا سکتی ہے۔

ہیپی رائس اسٹرا چاپر نامی مشین کے ذریعے دھان کی باقیات زمین میں بطور کھاد مکس ہونے سے فصل کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے کسانوں کو رواں برس جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ 500 مشینیں فراہم کی جا رہی ہیں جب کہ  مستقبل میں یہ تعداد 5000 تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔

روایتی طریقے سے دھان کی کٹائی کے بعد مقامی کاشت کار باقیات کے خشک ہونے تک انتظار کرتے تھے اور بعد میں اسے جلا دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے بہت زیادہ اسموگ پیدا ہوتی تھی۔

روایتی طریقے سے دوسری فصل کی بوائی میں تقریبا 20 سے 25 دن لگتے ہیں جب کہ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ وقت بچایا جا رہا ہے۔

دھان کی باقیات بطور کھاد زمین میں دوبارہ شامل ہونے سے زمین کی نمی پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نیز دھان کی کٹائی کے فور بعد گندم لگا سکتے ہیں۔

پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت بڑی حد تک زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکہ اسموگ کے سنگین مسئلے سے بھی نجات حاصل کی جاسکے گی۔

موسم سرما میں اسموگ کے باعث دھند چھا جانے سے حد نظر محدود ہو جاتی ہے جس کے سبب سڑک حادثات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

صوبہ پنجاب کے جن کاشت کاروں نے تجرباتی طور پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا ہے ان کے نزدیک اس ٹیکنالوجی کے کوئی منفی نتائج نہیں ہیں۔