وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے بارے میں مشاورتی عمل جاری ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ نے مشیر خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف آئندہ بدھ کو تاجکستان کے دورے پر روانہ ہوں گے جہاں وہ پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کے سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ان کے بقول گزشتہ ماہ آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
ایک روز قبل ہی وزیراعظم جن کے پاس وزارت خارجہ کا قلمدان بھی ہے، نے اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے دورے کے موقع پر عہدیداروں کو ہدایت کی تھی کہ افغانستان اور خطے میں امن و استحکام کے لیے لائحہ عمل وضع کیا جائے۔
پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں اور خاص طور پر ایک سال کے دوران تعلقات میں بہتری اور امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو دونوں جانب ہونے والے متعدد مہلک دہشت گرد حملوں سے نقصان پہنچا ہے۔
دونوں پڑوسی ملک ان واقعات میں ملوث عناصر کی پشت پناہی یا حمایت کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
مبصرین یہ کہتے آئے ہیں کہ الزام تراشیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا مزید بڑھ رہی ہے جس میں کمی کے بغیر اختلافات دور کرنے کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو سکتیں۔
بین الاقوامی امور کی ماہر اور سینیئر تجزیہ کار نسیم زہرہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اعتماد سازی کے لیے اعلیٰ سطحی رابطوں کا تسلسل سود مند ثابت ہو سکتا ہے لیکن ان کے بقول حالات میں بہتری کے لیے وقت صرف ہوگا۔
حالیہ مہیںوں میں چین اور روس بھی افغانستان میں مصالحتی عمل کی کوششوں میں خاصے گرمجوش دکھائی دیے ہیں جو مبصرین کے خیال میں خوش آئند پیش رفت ہے لیکن ان کے بقول اس ضمن میں امریکہ کا کردار بدستور بہت اہمیت کا حامل رہے گا۔