آئینی ترمیم: مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ عدلیہ میں اصلاحات لانے پر اتفاق: مولانا فضل الرحمان

مجوزہ چھبیسویں آئینی ترمیم پر مشاورت اور حتمی منظوری کے لیے مشاورتی اجلاس جاتی امرا میں ہوا۔

  • چھبیسویں آئینی ترمیم پر بڑی جماعتوں میں اتفاق رائے۔
  • پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن گروپ عدالتی اصلاحات لانے پرمتفق۔
  • دیگر مسائل پر بھی چند دنوں میں اتفاق ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان
  • جمعرات کے روز تحریک انصاف کے ساتھ بھی مشاورت کریں گے، مولانا فضل الرحمان
  • آئینی ترمیم 17 اکتوبر کو ایوان میں لائی جائے گی۔

پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن گروپ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے عدالتی اصلاحات لانے پر اتفاقِ کر لیا ہے۔ مولانافضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا اتفاق رائے بھی حاصل کیا جائے گا۔

مجوزہ چھبیسویں آئینی ترمیم پر مشاورت اور حتمی منظوری کے لیے مشاورتی اجلاس جاتی امرا میں ہوا۔ نواز شریف کی میزبانی میں ہونے والے مشاورتی اجلاس میں صدر آصف زرداری، چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور دیگر سیاسی قیادت شریک ہوئی۔

اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تینوں جماعتوں میں عدلیہ میں اصلاحات کے لیے مشاورت کا عمل مکمل ہو گیا ہے اور تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے عدالتی اصلاحات لانے پر اتفاق کیا ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جس طرح تینوں جماعتوں نے مجوزہ آئینی ترمیم پر مشاورت کی ہے وہ جمعرات کی صبح پاکستان تحریک انصاف سے بھی مشاورت کریں گے اور اُن کا اتفاق رائے بھی حاصل کیا جائے گا۔

SEE ALSO: آئینی ترمیم کی ممکنہ منظوری؛ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس جمعرات کو طلب

فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آئین میں ایسی ترامیم لائی جائیں جو اداروں میں اصلاحات کا سبب بنیں اور آئین کی بالا دستی کو یقینی بنائیں۔ ادارے حدود میں رہیں اور سیاست میں مداخلت نہ کریں۔ اُںہوں نے مزید کہا کہ مشاورت کے بعد وہ اتفاق رائے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

فضل الرحمٰن نے کہا کہ اُنہوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے کو مسترد کیا تھا، جسے وہ آج بھی مسترد کرتے ہیں۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی پی پی اور جے یوں آئی کے درمیان جوڈیشل اصلاحات کے حوالے سے جو اتفاق رائے پیدا ہوا وہی اتفاق تین جماعتوں کے درمیان ہو گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی عدالتی اصلاحات چاہتی ہیں۔ ترمیم کے ذریعے ایوان کی بالا دستی چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصلاحات کے بعد سب کو نظر آئے گا کہ آئین توڑنا کیا ہوتا ہے اور آئین کی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔

SEE ALSO: صوبوں اور وفاق کے درمیان قومی مالیاتی معاہدہ؛ کیا اس سے پاکستان کے مسائل حل ہو پائیں گے؟

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ تینوں جماعتوں کا عدالتی اصلاحات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، دیگر مسائل پر بھی چند دنوں میں اتفاق ہو جائے گا۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ یہ اصلاحات اور ترمیم کسی ایک سیاسی جماعت کا ذاتی مقصد نہیں ہے، یہ اصلاحات لانے کے لیے نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے دستخط کیے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عدالتی اصلاحات کے بعد ایپیکس کورٹ صرف لوگوں کے سول اور کرمنل کیسوں کو دیکھے گی، جس کی تفصیلات وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ جلد بتا دیں گے۔

واضح رہے صدر آصف علی زرداری نے جمعرات سترہ اکتوبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس طلب کر رکھے ہیں۔ جن میں ممکنہ طور پر چھبیسویں آئینی ترمیم کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

SEE ALSO: مجوزہ آئینی ترمیم کا مقصد صرف حکومت کو تحفظ دینا تھا: مولانا فضل الرحمان

اطلاعات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے بھی وفاقی کابینہ کا اجلاس سترہ اکتوبر کو پارلیمنٹ ہاوس میں طلب کر رکھا ہے۔ جس میں چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جائے گی۔

ملاقات میں موجود ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جاتی امراء میں ہونے والے اجلاس میں ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں سے ہونے والی مشاورت پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

ذرائع کے مطابق چھبیسویں آئینی ترمیم کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کی حکمت عملی طے کر لی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر ارکانِ اسمبلی اور سینیٹ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے تمام ہم خیال جماعتوں کے رہنماؤں کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے گزشتہ ماہ بھی چھبیسویں آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے کوششیں کیں تھیں، لیکن ارکانِ اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کے سبب وہ ایسا نہیں کر سکی تھی۔

چھبیسویں آئنی ترمیم کے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لیے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اِن کیمرہ اجلاس بھی جمعرات کی صبح گیارہ بجے طلب کیا گیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

مجوزہ آئینی ترمیم مؤخر: حکومت مولانا فضل الرحمان کو منانے میں ناکام کیوں رہی؟

اِس سے قبل بدھ کے روز پی پی پی کے سید خورشید شاہ کی زیرِ صدارت ہونے والی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اِن کیمرہ اجلاس میں صرف بارہ ارکان ہی شریک ہو سکے تھے۔ خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے کسی رکن نے شرکت نہیں کی اور پی ٹی آئی نے خصوصی کمیٹی کو آئینی ترامیم کی تجاویز کا مسودہ بھی پیش نہیں کیا۔

اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں جے یو آئی ف اور اے این پی نے آئینی ترامیم کے مسودے کے لے تجاویز پیش کیں۔

پی پی پی اور جے یو آئی میں چھبیسویں آئینی ترمیم سے متعلق پہلے ہی اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔