تارکین وطن اپنے حقوق کے لیے متحد ہوں: رکن کانگریس جوڈی چو

آج کی چینی کمیونٹی امریکہ کی معاشی سرگرمیوں میں ایک فعال کردار ادا کررہی ہے اور اس کے نمائندے مقامی سیاست میں بھی سرگرم حصہ لے رہے ہیں
اکثر امریکی شہروں میں چائنا ٹاؤن کے نام سےایسے علاقے موجود ہیں جہاں چینی فن تعمیر، کلچر اور ثقافت کی چھاپ بہت نمایاں ہے۔ ان قصبوں میں اکثر دکانوں اور اسٹوروں کے سائن بورڈ کثرت سے ہیں اور وہاں اکثر چیزوں پر چینی تحریریں اور علامتیں دکھائی دیتی ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے چینی قصبوں کے قیام کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور اپنے اندر سوچ کے کئی پہلو رکھتی ہے۔

سوچ کے ایک ایسے ہی پہلو نے لاس اینجلس کی ایک چینی نژاد ٹیچر کو سیاست کے میدان میں آنے کی راہ دکھائی اور وہ امریکی ایوان نمائندگان کی چینی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون رکن کانگریس بن گئیں۔ اس شخصیت کا نام ہے جوڈی چو۔

امریکہ میں چینی باشندوں کی آمد کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ 1840ء کے عشرے میں برطانیہ کے ہاتھوں چینی حکمرانوں کی شکست نے، بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے والے چینیوں کے لیے بیرونی دنیا کی راہیں کھول دیں۔ اس زمانے میں اکثر چینی امریکہ کو سونے کے پہاڑوں کی سرزمین سمجھتے تھے۔ چنانچہ، بیرونی سفر پر جانے والے اکثر چینی باشندے کسی طرح امریکہ پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیفے ڈی سی Congresswoman Judy Chu



چینی باشندے ایک ایسے دور میں امریکہ داخل ہونے لگے جب یہاں بڑے پیمانے پر ریل کی پٹریاں بچھائی جارہی تھیں اور ذرائع آمد و رفت کو ترقی دی جارہی تھی۔ جس سے تارکین وطن کے لیے روزگار کے دروازے کھل گئے تھے۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ میں چینیوں کی آمد روکنے اور انہیں اپنے آبائی وطن لوٹنے پر مجبور ہونے کے اقدامات کیے جانے لگے۔

معاشی سست روی اور ریلوے نظام کی تکمیل کےبعد بڑے پیمانے پر کارکن اور مزدور بے روزگار ہوگئے۔ اور انہوں نے اس کا ذمہ دار چینی کارکنوں اور کاریگروں کو قرار دینا شروع کردیا۔ بدلے ہوئے حالات میں بہت سے چینی کھیتی باڑی کرنے لگے۔ کئی ایک تعمیراتی مزدور بن کر ذاتی کاروبار کرنے لگے۔ کچھ نے لانڈری کاشعبہ سنبھال لیا اور بہت سوں نے چینی ریستوران کھول لیے جو اپنے مخصوص ذائقے اور انفرادیت کی بنا پر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ بھر میں مشہور ہوگئے۔

آج کی چینی کمیونٹی یہاں کی معاشی سرگرمیوں میں ایک فعال کردار ادا کررہی ہے اور اس کے نمائندے مقامی سیاست میں بھی سرگرم حصہ لے رہے ہیں۔جب کہ 2009 ءمیں اس کمیونٹی کی ایک خاتون جوڈی چو ، امریکی ایوان نمائندگان کی نشست حاصل کرکے پہلی چینی نژاد کانگریس وومن بن گئیں۔

کانگریس وومن چو نے، جو نفسیات میں پی ایچ ڈی ہیں ،اپنی عملی زندگی کا آغاز لاس اینجلس میں ایک ٹیچر کی حیثیت سے کیا اور 20 سال تک درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہنے کے بعد وہ مقامی سیاست میں حصہ لینے لگیں، کچھ عرصے تک لاس اینجلس کے ایک ٹاؤن کی میئر کے فرائض بھی سر انجام دیے۔

وائس آف امریکہ کے ٹیلی ویژن شو ’کیفے ڈی سی‘ میں اردو سروس کے چیف فیض رحمٰن کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کانگریس وومن جوڈی چو نے بتایا کہ امریکہ میں یہ ان کی تیسری نسل ہے۔ ان کے دادا یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ ان کا ایک چھوٹا سا ریستوران تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب چینیوں کے خلاف سخت قوانین بن رہے تھے اور حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ خراب حالات سے کبھی دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ وہ ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔

جوڈی چو کہتی ہیں میں نے کبھی سیاست میں آنے کا نہیں سوچا تھا۔ اور میں ایک کمیونٹی کالج میں نفسیات پڑھا رہی تھی۔ لیکن پھر ہوا یوں کہ مانٹری پارک کے قصبے میں، جہاں میری رہائش ہے، ایک واقعہ نے گویا سب کچھ ہی بدل ڈالا اور وہ تھی امیگرنٹس کے خلاف چلائی جانے والی نفرت پر مبنی ایک مہم جس میں کہا گیا تھا کہ انگریزی کے سوا کوئی زبان قبول نہیں کی جائے گی۔ اس علاقے میں چینی نژاد باشندوں کی بڑی تعداد آبادتھی۔ وہاں ان کے کاروبار تھے اور انہوں نے اپنی دکانوں پر چینی زبان کے بورڈ اور عبارتیں آویزں کررکھی تھی۔ مہم کے منتظمین کا کہناتھا کہ انگریزی کے سوا تمام زبانوں کے نشان مٹادیے جائیں۔اور کوئی بھی غیر ملکی باشندہ انگریزی کے سوا کوئی زبان نہ بولے۔

کانگریس وومن چو نے کہا کہ تحریک چلانے والوں نے سٹی کونسل میں امیگرنٹس کی زبانوں کے خلاف ایک بل بھی منظور کروا لیا۔ جس کے بعد انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور تعصبانہ قانون سازی کے خلاف ہزاروں دستخط حاصل کیے جس پر سٹی کونسل کو اپنا قانون واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ اس واقعہ سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اپنے حقوق کے دفاع کے لیے سٹی کونسل میں ہمارا کوئی نمائندہ ہونا چاہیئے۔ چنانچہ میں انتخاب جیت کر سٹی کونسل میں پہنچ گئی اور اپنی نئی حیثیت میں امیگرنٹس اور مقامی آبادی کے درمیان تعلقات کے فروغ کے لیے کئی پروگرام شروع کیے جسے ہر حلقے میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اور یہی چیز سٹی کونسل کی میئر شپ تک لے گئی۔

کانگریس وومن جوڈی چو نے ایوان میں ایک بل جمع کرایا ہے جس میں کہا گیاہے کہ امریکی حکومت 1882 ءکے اس سخت قانون پر معافی مانگے جس کے ذریعےچینی باشندوں کو امیگریشن اور امریکی شہریت دینے کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ چینی امیگرنٹس کو 60 سال تک ان انتہائی متعصبانہ قوانین کاسامنا کرنا پڑا ۔ جب کہ یہ چینی مزدور، کارکن اور کاریگر تھے جنہوں نے اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا جس پر آج کے ترقی یافتہ امریکہ کی عمارت کھڑی ہے۔یہ قوانین 1943 ءمیں واپس لے لیے گئے تھے۔

کانگریس وومن چو نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ لاس اینجلس اور شمالی کیلی فورنیا میں مسلمان تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہےجن میں سے کئی ایک کو نائین الیون کے بعد کے حالات میں مشکلات اور نفرت پر مبنی جرائم کا سامناکرنا پڑ رہاہے۔

خاص طورپر ایئرپورٹس پر مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتنے کی شکایات عام ہیں ۔ ان کا کہناتھا کہ وہ مسلم امیگرنٹس کی مشکلات دور کرنے کے لیے کام کررہی ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ تعصب کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ کمیونٹی اپنے اندر اتحاد پیدا کرے اور زیادتیوں کے خلاف مشترکہ آواز اٹھائے۔انہوں نے جاپانی تارکین وطن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر وہ تعصبانہ رویوں اور سلوک کا بطور خاص نشانہ بنے تھے اور بہت سے جاپانیوں کے خلاف امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کے مقدمات قائم کیے گئے تھے ۔

کانگریس وومن جوڈی چو کا کہناہے کہ جاپانیوں کو اس امتیازی سلوک کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ ان کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔ان زیادتیوں سے سبق سیکھنے کے بعد انہوں نے سرگرمی سے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا اور اپنے لیے انصاف حاصل کیا۔ ماضی کے واقعات امیگرنٹ کمیونیٹز کو یہ درس دیتے ہیں کہ وہ اپنے اندر اتحاد پیدا کریں اور اپنے نمائندے ایوانوں میں بھیجیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے جن میں اکثریت ہسپانوی نژاد باشندوں کی ہے ۔ اس گنتی میں پاکستان سمیت دنیابھر کے مختلف علاقوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور انہیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ کانگریس وومن چو نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں جلد قانون سازی کی توقع کررہی ہیں کیونکہ دونوں پارٹیوں کے کئی ارکان کانگریس اور سینیٹرز ایک متفقہ بل پر سنجیدگی سے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں 73 فی صد ایشیائی اور 71 فی صد ہسپانوی تارکین وطن نے صدر براک اوباما کوووٹ دیے تھے اور وہ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ صدر ان کے حقوق کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔

وہائٹ ہاؤس کے تجویز کردہ نئے مالی سال کے بجٹ کے بارے میں کانگریس وومن جوڈی چو کا کہناہے کہ ایوان میں اس پر گرما گرم بحث متوقع ہے، کیونکہ بجٹ کٹوتیوں اور تیل کے شعبے کو دی جانے والی مراعات پر کانگریس کے کئی ارکان کو تحفظات ہیں۔