دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنی ہو گی: امریکی قانون ساز روراباکر

ریپبلکن قانون ساز ڈانا روراباکر (فائل فوٹو)

پاکستان کے لیے امریکی امداد کو مشروط کیے جانے کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان قابل بھروسہ اتحادی نہیں ہے۔

پاکستان کی طرف سے گزشتہ ہفتے اپنے جنوب مغربی علاقے میں امریکی ڈرون حملے کی مذمت اور اسے پاک امریکہ تعلقات کے لیے مضر قرار دینے کے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔

لیکن جہاں واشنگٹن یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے عناصر کو نشانہ بناتا رہے گا وہیں بعض قانون سازوں نے بھی پاکستان پر اپنی سرزمین دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی مبینہ اجازت دینے پر جنوبی ایشیا کے اس ایٹمی ملک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کیلیفورنیا سے کانگریس کے ریپبلکن رکن ڈانا روراباکر نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی پاکستان کو سخت الفاظ میں ہدف تنقید بنایا۔

اس ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور مارے گئے تھے۔

روراباکر کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ امریکہ اب پاکستان کے "احساسات مجروح ہونے پر کم توجہ دے رہا ہے اور اس (پاکستان) کے علاقوں پر پرواز پر پریشان نہیں۔"

ان کے بقول اس سے قطع نظر "ہم (ان کے علاقوں پر) پرواز کریں اور اس دہشت گرد کو مار دیں، پیشتر اس کے کہ وہ دہشت گرد ہزاروں معصوم افغانوں کو یا اور لوگوں کو قتل کرے۔"

ان سے جب پوچھا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ امریکہ طالبان کی "کوئٹہ شوریٰ" کے رہنما کو مستقبل میں بھی نشانہ بناتا رہے گا؟ تو ان کا کہنا تھا۔

"میرے خیال میں یہ امریکہ کے لیے اہم ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کی قیادت کو ہدف بنانے کی بہترین کوشش کرے بجائے اس کے کہ مثال کے طور پر وہ کارپٹ بمباری یا (کوئی اور طریقہ) استعمال کرے تاکہ شہریوں کا نقصان کم سے کم ہو۔"

افغانستان میں دوبارہ امریکی فوجیوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں شروع کرنی چاہیئں یا نہیں، اس پر رکن گانگریس ڈانا روراباکر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں افغانستان میں فوجی آپریشن افغان کو ہی کرنا چاہیے۔

"ہمیں انھیں معاونت دینی چاہیے، جیسے کہ فضائی مدد اور دیگر ہتھیار اور ٹیکنالوجی وغیرہ، لیکن افغانستان کو بنیادی طور پر یہ لڑائی خود لڑنی ہے۔"

پاکستان کے لیے امریکی امداد کو مشروط کیے جانے کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان قابل بھروسہ اتحادی نہیں ہے۔

روراباکر نے رواں ماہ اپنے ایک اداریے میں افغان نائب صدر رشید دوستم کو واشنگٹن مدعو کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی وضاحت میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں افغان حکومت میں ایسے باہمت لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو افغانستان کے حالات خراب کرنے والوں کو صحیح طور پر جواب دے سکیں۔

"افغان حکومت میں بہت سے اچھے لوگ ہیں لیکن وہ ایسے نہیں جو فوجی آپریشن کی قیادت کر کے دہشت گردوں کو تباہ کر سکیں، لہذا ہمیں دوستم کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔"

حال ہی میں افغان حکومت نے سابق وزیراعظم اور دہشت گردوں کی بین الاقوامی فہرست میں شامل گلبدین حکمت یار کی تنظیم حزب اسلامی سے امن معاہدہ کیا ہے۔ لیکن روراباکر اس سے مطمیئن دکھائی نہیں دیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’ان (گلبدین) کے ساتھیوں نے کابل میں ہزاروں معصوم لوگوں کو مارا، میرے خیال میں گلبدین کو معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔"

انھوں نے افغانستان کی قومی اتحادی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شراکت اقتدار کے معاہدے کے بعد سے افغانستان میں کچھ استحکام آیا ہے۔

"ہمیں اس صورتحال کو ہاتھوں سے نہیں جانے دے سکتے، ہمیں حکومت میں شامل تمام فریقین کو وہ مراعات دینی ہیں تاکہ وہ مل کر کام کریں۔ اور کسی ایک کو دوسرے پر غالب نہیں لانا چاہیے۔"

ایوان نمائندگان کے ریپبلکن رکن روراباکر نے عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری لڑائی کے بارے امریکی صدر براک اوباما کو حکمت عملی پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

"ہمیں اس (حکمت عملی) کو بدلنا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں امریکی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر عزم کی ضرورت ہے۔"