کیا کانگریس پارٹی کا کنٹرول نہرو،گاندھی خاندان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے؟

بھارت میں کانگریس پارٹی کے انتخابات اکتوبر میں ہو رہے ہیں جن میں نہرو، گاندھی خاندان کا کوئی فرد اُمیدوار نہیں ہے۔

نئی دہلی۔ بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی کے صدر کے انتخاب کا عمل شروع ہو گیا ہے۔سینئر کانگریس رہنماؤں ششی تھرور اور سابق وزیر ریلوے ملک ارجن کھرگے نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔ ششی تھرور کیرالہ کے ترو اننت پورم سے رکن پارلیمان ہیں جب کہ کھرگے راجیہ سبھا کے رکن اور ایوان میں کانگریس کے قائد ہیں۔

کاغذات نامزدگی جمع کرتے وقت نہرو ،گاندھی خاندان کا کوئی فرد کانگریس کے دفتر میں نہیں تھا۔ 17 اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور 19 اکتوبر کو نتیجے کا اعلان ہوگا۔ قابلِ ذکر ہے کہ 22 برس کے بعد کانگریس صدر کا انتخاب ہو رہا ہے۔ سابق صدور سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے صدارتی الیکشن لڑنے سے انکار کی وجہ سے یہ انتخاب ہو رہا ہے۔

ششی تھرور کے کانگریس کے صدر دفتر میں کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے کچھ دیر بعد کھرگے نے بھی کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے۔ اس وقت متعدد سینئر رہنما کھرگے کے ساتھ تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کو سونیا گاندھی کی حمایت حاصل ہے۔

آخری لمحے میں ایک اور امیدوار سامنے آگیا۔ ان دونوں کے علاوہ جھارکھنڈ کے سابق وزیر کے این ترپاٹھی نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کیے۔

ملک ارجن کھرگے کانگریس دور میں ریلوے کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد ششی تھرور نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل میں ہر چیز مثالی نہیں ہوتی ۔ ان کا خیال ہے کہ نیا قائد آنا چاہیے جو پارٹی کو پھر ابھار سکے اور گزشتہ الیکشن میں کانگریس کو حاصل ووٹوں سے زیادہ ووٹ دلا سکے۔

انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارٹی میں اعلیٰ کمان کا کلچر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ملک ارجن کھرگے کے لیے غلط جذبات نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ شریک کار ہیں۔

ملک ارجن کھرگے نے کہا کہ وہ پارٹی میں بڑی تبدیلی کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 19 اکتوبر کو نتیجہ آئے گا اور انہیں امید ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔ اعلیٰ کمان سے ناراض گروپ کے ایک رکن منیش تیواری نے کھرگے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارٹی میں سب سے تجربہ کار اور دلت لیڈر ہیں۔


ملک ارجن کھرگے کا نام جمعرات کی شب میں اس وقت سامنے آیا جب سونیا گاندھی کی پہلی پسند راجستھان کے وزیر اعلیٰ اور سینئر رہنما اشوک گہلوت نے سونیا سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ صدر کا انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں۔ بقول ان کے انہوں نے اس بارے میں سونیا گاندھی سے معذرت کر لی ہے۔

پارٹی اعلیٰ کمان کی جانب سے سب سے پہلے اشوک گہلوت کا نام پارٹی صدر کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ لیکن وہ راجستھان کے وزیر ِاعلیٰ کے عہدے سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی دوران راہل گاندھی نے اعلان کیا کہ پارٹی ایک شخص ایک عہدہ کے اصول پر قائم رہے گی اور گہلوت سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا تو ان کے حامیوں نے بغاوت کر دی۔

اشوک گہلوت نے ایک ٹویٹ میں متعدد سینئر رہنماؤں کے نام لے کر کہا کہ یہ سب کھرگے کے ساتھ ہیں۔ ان میں ناراض گروپ کے کچھ لوگوں کے بھی نام ہیں۔ کانگریس کے رکن پارلیمان منیکم ٹیگور نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ 51 برس کے بعد کوئی دلت لیڈر پھر کانگریس کا صدر بن سکتا ہے۔

اس سے قبل 2000 میں اس وقت کے سینئر رہنما جتیندر پرساد نے سونیا گاندھی کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑا تھا اور شکست کھا گئے تھے۔ اس سے قبل 1996 سے 1998 تک سیتا رام کیسری کانگریس کے صدر تھے جو کہ نہرو گاندھی خاندان کے باہر سے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اب کانگریس پارٹی میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے دو پارلیمانی انتخابات 2004 اور 2009 میں کامیابی حاصل کی اور حکومت بنائی۔ 2004 میں سونیا گاندھی نے وزیر ِاعظم کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا تھا اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سونیا گاندھی کے اس فیصلے نے سیاست میں ان کا قد بہت بلند کر دیا جس کی وجہ سے پارٹی میں کوئی بھی لیڈر ان کے مقابل آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لیکن راہل گاندھی کے 2017 میں صدر بننے اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں شکست اور ان کے مستعفی ہونے کے بعد سے صورتِ حال کافی بدل گئی ہے اور اس خاندان کا دبدبہ بہت حد تک کم ہو گیا۔۔

کیا کانگریس منظم ہو سکے گی؟

کانگریس کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار معصوم مرادآبادی کہتے ہیں کہ جو بھی کامیاب ہوگا اس کو اپنے فیصلوں کو وہیں سے منظور کرانا ہوگا۔ کیوں کانگریس میں جس قسم کا کلچر پیدا ہو گیا ہے اس میں اس خاندان کے اثر سے نکلنا مشکل ہے۔ ان کے بقول یہ خاندان کانگریس کی کمزوری بھی ہے اور طاقت بھی ہے۔

ان کے خیال میں اگر چہ ششی تھرور نے یہ کہا ہے کہ وہ پارٹی سے ہائی کمان کا کلچر ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب ہو سکیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کیوں کہ وہ راجیو گاندھی کے دوست رہے ہیں اور وہ بھی کانگریس کلچر کے پروردہ ہیں۔

یاد رہے کہ ششی تھرور بھی ناراض گروپ کے ایک رکن ہیں۔ لیکن انہوں نے سونیا گاندھی سے ملاقات کرکے ان کے سامنے الیکشن لڑنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر بقول ان کے سونیا نے انہیں اس کی اجازت دی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے بعض ایسے بیانات دیے ہیں جو اعلیٰ کمان کے لیے اطمینان بخش نہیں رہے لیکن انہوں نے کبھی بھی کھل کر نہرو گاندھی خاندان کی مخالفت نہیں کی۔

نہرو، گاندھی خاندان کی سرپرستی کانگریس کے لیے ناگزیر؟

حزبِِ اختلاف کی جماعتوں پر ایک کتاب کے مصنف اور سینئر تجزیہ کار اکو سری واستو کہتے ہیں کہ اگر چہ نہرو گاندھی خاندان انتخابی دوڑ سے باہر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کا اس خاندان کی سرپرستی میں رہنا اس کی مجبوری ہے۔ ان کے بقول اس سے قبل بھی اس خاندان سے باہر کے صدر ہوئے ہیں لیکن وہ دوسرا زمانہ تھا۔

وہ یاد دلاتے ہیں کہ اس خاندان سے باہر کے بہت سے لوگ صدر ہوئے ہیں جیسے کہ آزادی سے قبل مولانا آزاد وغیرہ اور آزادی کے بعد جگجیون رام، شنکر دیال شرما، پی وی نرسمہا راو جو کہ وزیر ِاعظم بھی بنے اور پھر سیتا رام کیسری۔ لیکن سونیا گاندھی کے صدر بننے کے بعد وہ روایت ختم ہو گئی۔


بعض دیگر تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس وقت نہرو گاندھی خاندان کی گرفت جس طرح کمزور ہوئی ہے اس کے پیش نظر خاندان سے باہر کے کسی لیڈر کا صدر بننا ضروری بھی تھا۔ کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کانگریس پر ہمیشہ خاندانی راج کا الزام لگاتی ہے اور کہتی ہے کہ کانگریس میں جمہوریت نہیں ہے۔

لیکن معصوم مرادآبادی کے مطابق نہرو، گاندھی خاندان کے باہر سے صدر منتخب ہونے کے بعد بھی بی جے پی اس پر اسی قسم کا الزام لگائے گی۔ وہ کہے گی کہ پارٹی میں وہی کچھ ہوتا ہے جو نہرو گاندھی خاندان چاہتا ہے۔ لہٰذا اگر ششی تھرور منتخب ہو جاتے ہیں اور وہ پارٹی کو اس خاندان کے اثرات سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پارٹی کی بڑی خدمت ہو گی۔