امریکی کانگریس کی سب کمیٹی کے سامنے گزشتہ روز جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی صورتحال پرسماعت کے موقع پر کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر چھ گواہ پیش ہوئے۔ اس پرائیویٹ سیشن میں پیش ہونے والی پہلی گواہ بھارتی صحافی آرتی ٹیکو سنگھ تھیں جنھوں نے کہا کہ میڈیا میں کشمیر کی اصل صورتحال پیش نہیں کی جارہی۔ ان کے بقول کشمیر کےحقیقی متاثرین وہ لوگ ہیں جنھیں دہشت گرد قتل کررہے ہیں ۔ آرتی ٹیکو سنگھ کہتی ہیں
’’ مجھے بتانے دیجئے کہ کشمیر کے اصل متاثرین کون ہیں، یہ ہیں میرے دوست شجاعت بخاری ، وہ ایک سنیئر صحافی ، اور امن کے پیامبر تھے، جوکشمیر کے مسئلے کو پاک بھارت مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہتے تھے۔ چودہ جون 2018 کو ،دفتر کے باہر انھیں قتل کردیا گیا ٴاور قتل میں کون ملوث تھا ؟ لشکر طیبہ ، وہی دہشت گرد گروپ جس پر امریکہ نے پابندی عائد کی ہے ، وہی گروپ جو بمبئی حملے کی سازش میں ملوث ہے۔ انھیں کیوں قتل کیا گیا اس لئے کہ شجاعت چاہتے تھے کہ کشمیر میں پاکستان کا تشدد اور انسانی حقو ق کی خلاف ورزیاں ختم ہوں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری گواہ نتاشا کور تھیں جو یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیموکریسی سے بھی وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر کور کا کہنا تھا کہ انڈیا میں آر ایس ایس، موجودہ حکمران جماعت کی پیرا ملٹری فورس، جس کا نظریہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے وہ سابقہ تمام ریاستوں کو ملا کر ہندو انڈیا بنانا چاہتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ تقسیم ہوکر الگ ہونے والے ممالک بھی اس ہندو انڈیا کا حصہ ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر کور کا کہنا تھا ، 'ہم جس چیز کے خواہش مند ہیں وہ ہیں انسانی حقوق، جمہوریت، اور آزادی۔ آزادی کا معاملہ یہ ہے کہ برسوں سے، لوگوں کو محض پرامن طور پر جمع ہونے کی پاداش میں، متعدد بار گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ لازم ہے کہ (بھارت کی)حکومت اس بات کو تسلیم کرے اور کہے کہ ہم معافی چاہتے ہیں' ۔
بین الاقوامی امور کے ایک سینئربھارتی تجزیہ کار پروفیسر اشتیاق دانش نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے پہلے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا تھا۔ بھارت اگرچہ یہ کہتا ہے کہ یہ اس کا داخلی معاملہ ہے لیکن اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی تو آوازیں تو اٹھیں گی ہی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی ایوان کانگریس میں مسئلہ کشمیر پر سماعت سے یہ بات پھر واضح ہوتی ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
سابق بھارتی ایئر چیف اور سابق سفارتکار کپل کاک ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ معاملہ پہلے بھی عالمی تھا اور اب بھی عالمی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 78 روز ہو گئے ہیں، سب کچھ بند ہے۔ دکانیں بند ہیں، اسکول بندہے، کالج بند ہے، یونیورسٹی بند ہے۔ بزنس بند ہے۔ تو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے دنیا دیکھ رہی ہے۔
کپل کاک کہتے ہیں کہ مین اسٹریم کشمیری سیاست دانوں کو جیلوں میں بند رکھنا اچھی بات نہیں۔ وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔
بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹا کر اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے معاملے پر گزشتہ روز پہلی بار امریکی کانگریس میں ایک سماعت ہوئی تھی ، جس کے دوران امریکی انتظامیہ نے کشمیر کے موجودہ حالات کو انسانی بحران سے تعبیر کیا۔
تاہم یہ بھی کہا گیا کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے رشتے باہمی اشتراک پر مبنی ہیں۔ جبکہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بھارت کا خیرمقدم بھی کیا گیا۔
انتظامیہ نے ارکان کانگریس کو بتایا کہ امریکی سفارتکار پانچ اگست کے بعد کشمیر کا د ورہ کرنا چاہتے تھے مگر بھارتی حکومت نے یہ کہتے ہوئے اجازت نہیں دی کہ وہاں جانے کا یہ مناسب وقت نہیں۔
امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلس نے کہا کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے بارے میں امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ اسے متنازعہ علاقہ مانتا ہے۔
انھوں نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیکیورٹی صورت حال کشیدہ ہے اور نوجوانوں اور سیکیورٹی فورسز میں ٹکراو معمول کی بات ہے۔
ان کے بقول امریکی وزارت خارجہ نے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت مقامی سیاست دانوں کی گرفتاری اور انٹرنیٹ پر پابندی پر بھارتی حکومت کے سامنے فوری اور مسلسل تشویش کا اظہار کیا ہے اور نئی دہلی سے کہا ہے کہ وہ سیکورٹی فورسز اور انسانی حقوق کے درمیان توازن قائم رکھے۔
وہ کانگریس کے پینل کے چیئرمین بریڈ شرمین کے اس سوال کا جواب دے رہی تھیں کہ کیا پانچ اگست کے بعد کشمیر کے بارے میں امریکہ کا موقف متاثر ہوا ہے اور کیا اب واشنگٹن لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد سمجھتا ہے۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں صورت حال رفتہ رفتہ معمول پر آرہی ہے۔ لینڈ لائن فونز کھول دیے گئے ہیں۔ پری پیڈ موبائل بھی کام کر رہے ہیں۔ حالات جلد ہی بہتر ہو جائیں گے۔ بھارتی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ پانچ اگست کے بعد سے ایک بار بھی گولی نہیں چلائی گئی اور ایک بھی سویلین ہلاک نہیں ہوا۔