امریکہ میں حالیہ دنوں میں مسلمان اور تارکین وطن مخالف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی والے حکم نامے سے یہاں بسنے والی جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکی انتخابات کے بعد گزشتہ چند ماہ میں امریکہ بھر میں مسلمانوں، سکھوں، ہندوؤں اور عرب امریکیوں کے خلاف نسل پرستی، تشدد اور نفرت پر مبنی پے درپے واقعات سامنے آنے سے یہاں کے تارکین وطن اپنے دفاع اور حقوق کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔
جمعرات کو جنوبی ایشیائی امریکی لیڈروں کی ایک تنظیم 'سالٹ' نے ایک ٹاؤن حال میٹنگ کا انعقاد کیا۔ جس میں شرکاء نے اپنی کمیونٹی کو در پیش مسائل اور چیلنجز کا ذکر کیا جو ان کے مطابق 2016ء کے انتخابی عمل اور موجودہ انتظامیہ کی پالیسیوں کے رد عمل میں سامنے آ رہے ہیں۔
سالٹ تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سمن رگھوناتھن نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے گفتگو میں کہا کہ یہاں جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں بد قسمتی سے کئی خدشات پائے جاتے ہیں۔ انہیں تشویش ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے مسلمان مخالف اور تارکین وطن مخالف حکم ناموں کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے بہت سی کمیونیٹز متاثر ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں روزمرہ کی بنیاد پر نفرت پر مبنی جرائم کا بھی سامنا ہے۔ وہ انہیں تارکین وطن کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تند و تیز بیانات کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔
لیکن واشنگٹن پیس سنٹر سے وابستہ درخشاں راجہ کا کہنا ہے کہ امیگریشن، سفری پابندی، اسلامو فوبیا اور نفرت پر مبنی جرائم جیسی تمام صورتحال صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل کی ہے، یہ موجودہ انتظامیہ کی پیدا کردہ نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ دو بھارتی نژاد امریکوں کی ہلاکت کو نسل پرستانہ جرم قرار دے کر مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسے واقعات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کنساس کے گورنر سیم براؤن بیک نے بھی زور دے کر کہا کہ "ایک شخص کی نفرت انگیز اور نسل پرستانہ کارروائی کی بنیاد پر سب کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔"
ہیٹ کرائم یا نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب امریکی عہدیدار ایسے جرائم کی بھر پور تحقیقات بھی کرتے ہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی لا سنٹر سے وابستہ ارجن سیٹھی کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو نفرت پر مبنی جرائم کے سلسلے میں مضبوط قوانین کی ضرورت ہے۔
’"میرے خیال میں ایسے قوانین اس لئے بھی ضروری ہیں کیونکہ اس سے تمام کمیونٹی کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے جرائم کے اثرات پڑتے ہیں اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔"
سالٹ جیسی تنظیمیں پہلے ہی صدر ٹرمپ کی طرف سے چھ مسلمان اکثریت والے ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی سے متعلق انتظامی حکم کو امتیازی قرار دے چکی ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ کی ایک وفاقی عدالت کی طرف سے اس انتظامی حکم نامہ کے بعض حصوں پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔