امریکہ: پرتشدد فلموں، ویڈیوگیمز سے متعلق تشویش میں اضافہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ دورِ جدید کی فلموں میں تشدد کی قابلِ رشک انداز میں پیشکش اور ویڈیو گیمز میں موت کے کھیل کی عکاسی بھی کنیٹی کٹ جیسے سانحات کو جنم دینے میں بلواسطہ کردار ادا کرتی ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک اسکول میں ایک نوجوان کی فائرنگ سے 20 معصوم طلبہ اور چھ اساتذہ کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں آتشیں اسلحے پر کنٹرول کی بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔

لیکن آتشیں اسلحے پر قابو پانے کا مطالبہ کرنے والے کئی افراد کا موقف ہے کہ صرف ہتھیاروں کی دستیابی ہی اس طرح کے سانحات کو جنم دینے کی واحد وجہ نہیں بلکہ اس کے پسِ پشت کئی اور محرکات بھی ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دورِ جدید کی فلموں میں تشدد کی قابلِ رشک انداز میں پیشکش اور ویڈیو گیمز میں موت کے کھیل کی عکاسی کا بھی دراصل ان سانحات کو جنم دینے میں بلواسطہ کردار ہے۔

خاص طور پہ پرتشدد فلموں اور ویڈیو گیمز کے ان افراد پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو پہلے ہی مختلف ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں۔

روں سال جولائی میں ریلیز ہونےو الی ہالی ووڈ کی مشہور فلم 'دی ڈارک نائٹ رائزز' میں دکھائی گئی قتل و غارت، بعد ازاں امریکی ریاست کولاراڈو کے شہر ارورا کے ایک تھیٹر میں پیش آنے والی واردات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی۔

اس تھیٹر میں فائرنگ کرنے والے 24 سالہ جیمز ہومز نے 'بیٹ مین' فلم کے معروف کردار 'جوکر' کی طرز پر اپنے بال بھی سرخ رنگ سے رنگے ہوئے تھے۔

جیمز ہومز کی فائرنگ سے 12 افراد ہلاک اور 58 زخمی ہوئے تھے۔

لیکن اس لرزہ خیز واردات کے بعد بھی 'ہالی ووڈ' میں پرتشدد فلموں کی پروڈکشن پر کوئی اثر نہیں پڑا جو ہنوز جاری ہے۔

نومبر کے اواخر میں 'کلنگ دیم سوفٹلی' نامی ڈراما ریلیز ہوا ہے جو ایک کرائے کے قاتل کی داستان ہے۔ جب کہ رواں ہفتے ہی معروف ہدایت کار کوئنٹن ٹارنٹینو کی پرتشدد واقعات سے بھرپور فلم 'ڈجینگو ان-چینڈ' کی تقریبِ رونمائی ہونا تھی جسے کنیٹی کٹ سانحے کے سوگ میں ملتوی کردیا گیا۔ تاہم فلم طے شدہ پروگرام کے مطابق ریلیز کی جائے گی۔

جرائم کے مقدمات کی وکیلِ صفائی رینس سینڈلر بھی اس موقف کی حامی ہیں کہ اسکرین پر دکھائی جانے والی لڑائی حقیقی زندگی میں پیش آنے والی خونی وارداتوں کا محرک بنتی ہے۔

سینڈلر کے بقول اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار خود کو فلم کا ایک کردار سمجھتے ہوئے وہ سب کچھ کرنے لگتے ہیں جو انہوں نے اسکرین پر دیکھا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'ارورا' کے تھیٹر میں ہونے والی واردات اس موقف کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

لیکن رینس سینڈلر کے بقول فلموں سے کہیں زیادہ مہلک ویڈیو گیمز ثابت ہورہے ہیں جو نوجوانوں میں پرتشدد رویوں کی وجہ بنتے ہیں۔

سینڈلر کہتی ہیں کہ انہیں ایسے کئی موکل ملے ہیں جو ویڈیو گیمز میں قتل کرتے تھے، بندوقیں چلاتے تھے اور ہر گرنےو الی لاش اور بندوق سے نکلنے والی اور ٹھیک نشانے پر بیٹھنے والی گولی پر ان کا اسکور بڑھتا تھا۔

ان کے بقول، "یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم اس ملک میں بچوں کے لیے مضرِ صحت مشروبات پہ تو پابندی لگاسکتے ہیں لیکن ہم نے بچوں اور بڑوں کے لیے بننے والے ان پرتشدد ویڈیو گیمز پر قابو پانے کے لیے کچھ نہیں کیا"۔

سینڈلر کہتی ہیں کہ اسکرین پر نظر آنے والا تشدد بظاہر تو خطرناک نہیں لیکن یہ نفسیاتی عوارض کا شکار افراد کو خون بہانے اور دوسروں کی جان لینے پر پر اکسانے کا سبب بن سکتا ہے۔

لیکن 'گیمنگ' کی صنعت سے وابستہ ایک تنظیم ویڈیو گیمز اور تشدد کے رجحان کے اس باہمی تعلق کو افسانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتی ہے۔

جولائی میں فلم تھیٹر میں پیش آنے والے سانحے کے بعد فلمی صنعت کی ایک سرکردہ شخصیت نے فلموں میں تشدد کے موضوع پر ایک اجلاس بلانے کی تجویز دی تھی جس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا ہے۔

گوکہ پولیس نے گزشتہ ہفتے پیش آنے والے کنیٹی کٹ سانحے کے ذمہ دار 20 سالہ ایڈم لینزا – جس نے بعد ازاں خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی تھی – کے بارے میں زیادہ تفصیلات جاری نہیں کی ہیں لیکن اس واردات کی تفصیلات بڑی حد تک گزشتہ سال 'آسکر' کے لیے نامزد ہونے والی فلم "وی نیڈ ٹو ٹاک ابائوٹ کیون' کی کہانی سے ملتی جلتی ہیں۔

اس فلم میں ایک امیر گھرانے کا فرد 16 سالہ کیون اپنے خاندان کو قتل کرنے کے بعد مزید معصوم جانیں لینے کا مشن لیے اپنے اسکول پہنچتا ہے اور وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کرتا ہے۔ یہ فلم امریکی نوجوانوں کو درپیش نفسیاتی مسائل، امریکی معاشرے میں خاندان کے بکھرتے ہوئے ادارے اور تشدد کے بڑھتے رجحان کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔