بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیکیورٹی کے لیے اسرائیلی ماڈل اپنانے کے بیان پر ہونے والی تنقید کے بعد امریکہ میں تعینات بھارتی قونصل جنرل سندیپ چکروتی نے کہا ہے کہ ان کے کشمیر سے متعلق تبصرے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
کشمیری پنڈتوں سے خطاب کی تقریب کے دوران بننے والی ویڈیو میں سندیپ چکروتی کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں سیکیورٹی کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے اگر ہم 1989 میں بے دخل کرنے والے کشمیری ہندوؤں کو وادی میں دوبارہ سے آباد کر دیں۔
بدھ کو کی جانے والی ٹوئٹ میں سندیپ چکروتی نے کہا تھا کہ انہوں نے سماجی میڈیا پر ان کے کشمیر سے متعلق تبصرے پر ہونے والی تنقید دیکھی ہے۔ ان کے اس تبصرے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا گیا۔
بھارتی قونصل جنرل کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سماجی میڈیا سمیت بھارتی ذرائع ابلاغ میں حکومت پر جموں و کشمیر میں ممکنہ طور پر اسرائیلی ماڈل اپنائے جانے پر شدید تنقید سامنے آئی۔
جس کے بعد سندیپ چکروتی نے اپنے تبصرے سے متعلق وضاحتی ٹوئٹ کی۔
#India consul general in the US, Sandeep Chakravorty told Hindus & Indian nationals that India will build settlements modelled after Israel for the return of the Hindu population to Kashmir.%27It has happened in the Middle East. If the Israeli people can do it, we can also do it%27 pic.twitter.com/ztMjMti5oP
— DOAM (@doamuslims) November 27, 2019
ویڈیو میں چکروتی کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے اپنی ثقافت کو 2000 سال تک اپنی سر زمین سے باہر زندہ رکھا۔
1948 میں اسرائیل بننے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے بننے کے بعد مہاجرین واپس اپنے ملک چلے گئے۔
سماجی میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں سندیپ چکروتی کا مزید کہنا تھا کہ پتہ نہیں ہم کیوں نہیں مشرق وسطی کے ماڈل کو کشمیر میں اپناتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسرائیل ایسا کر سکتا ہے تو بھارت بھی ایسا کر سکتا ہے اور بھارت کی موجودہ قیادت ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
I have seen some social media comments on my recent remarks. My remarks are being taken out of context.
— Sandeep Chakravorty (@CHAKRAVIEW1971) November 27, 2019
خبر رساں ادارے 'انڈیا ٹو ڈے' کے مطابق بھارتی کی وزارت خارجہ نے نیو یارک میں تعینات قونصل جنرل سندیپ چکروتی کے تبصرے پر وضاحت کرنی ہے کہ آیا بھارت کا بھی کشمیر میں سیکیورٹی کی صورت حال سے متعلق یہی سرکاری مؤقف ہے۔
بھارتی قونصل جنرل کے تبصرے پر فوری رد عمل دیتے ہوئے بدھ کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ یہ سوچ ہندوستانی حکومت کی فاشسٹ ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے کہ جموں و کشمیر میں 100 دن گزر جانے کے بعد بھی کشمیریوں کا محاصرہ جاری ہے۔
وزیراعظم کا ٹوئٹ میں مزید کہنا تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی جاری ہے اور طاقتور ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں۔
آر ایس ایس کے نظریے پر کھڑی بھارت سرکار کی فسطائی ذہنیت نمایاں ہے کہ 100 روز سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود مقبوضہ جموں وکشمیر کامحاصرہ جاری ہے اور کشمیریوں کو انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا سامنا ہے جبکہ دنیا کے طاقتور ممالک محض اپنے تجارتی مفادات کے پیش نظر چپ سادھے کھڑے ہیں۔ https://t.co/fZE6KMpAlr
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) November 27, 2019
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں فلم ساز ویوک اگنی ہوتری نے کشمیری پنڈتوں کی حالت زار پر بنائی جانے والی اپنی فلم ‘کشمیر فائلز’ پر اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر ادکار پلاوی جوشی اور انوپم کھیر نے بھی کشمیری پنڈتوں کی محفل میں اپنے تجربات پر روشنی ڈالی۔
ویڈیو میں اداکار انوپم کھیر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے میں ستر سال لگ گئے۔ ہمیں اس پر جشن منانا چاہیے کہ ہمارا دوست اس پر فلم بنا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جیسے کسی لیڈر کی ضرورت تھی۔ جس نے کہا کہ مجھے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی ضرورت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے رواں سال 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں نقل و حمل پر پابندیوں کے علاوہ مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دیے تھے اور اہم سیاسی رہنماؤں کو بھی نظر بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان نے ان بھارتی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے تھے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت نے اس اقدام کے ذریعے 80 لاکھ سے زائد کشمیری شہریوں کو گھروں میں محصور کر دیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کو بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔
بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت شملہ اور لاہور معاہدوں کے تحت دو طرفہ امور باہمی مذاکرات سے ہی طے کرنے کے پابند ہیں۔ لہذا، کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔