ٹرمپ نے روس کے خلاف تفتیش بند کرنے کا کہا تھا: کومی

ایف بی آئی کے سابق سربراہ، جیمز کومی نے جمعرات کے روز امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تقاضا کیا تھا کہ وہ اُن سے وفاداری کا عہد کریں اور اُن پر زور دیا تھا کہ اُن کے مشیروں اور روسی حکام کے درمیان رابطوں کی تفتیش کے معاملے کو ختم کیا جائے۔

ٹرمپ نے کومی کو گذشتہ ماہ عہدے سے ہٹایا تھا۔ کومی نے کہا کہ ملک کے جرائم کی تفتیش کے چوٹی کے ادارے کے سربراہ کو معطل کرنے کا فیصلہ کرتے وقت اُن کے ذہن میں ’’روسی چھان بین کا معاملہ‘‘ تھا۔

سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے کومی کی پیشی، اپنی نوعیت کی پہلی عام سماعت تھی، جس میں کومی نے بتایا کہ اُنھیں فارغ کیے جانے سے قبل اُن کی صدر سے نو بار گفتگو ہو چکی تھی؛ جن میں سے تین بالمشافیٰ ملاقاتیں اور چھ ٹیلی فون کال تھیں۔

اُنھوں نے قانون سازوں کو بتایا کہ ٹرمپ کی جانب سے مختلف وضاحتوں کی بنا پر وہ پریشان ہوئے؛ اور اُن کے مشیروں نے اُنھیں نکلوانے میں کردار ادا کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایف بی آئی سربراہ کے طور پر اُن کی کارکردگی پر اُنھیں ’’بدنام کیا گیا‘‘، جو اُن کی رائے میں غلط رائے تھی، اور یہ بھی درست نہیں کہ ادارہ کسی طور پر بدنظمی کا شکار ہے۔

بالآخر کومی نے ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ ’’میں اُن کے الفاظ کو وقعت دیتا ہوں‘‘؛ اور یہ کہ اُنھیں اس لیے ہٹایا گیا، کیونکہ ’فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن‘ نے روس سے متعلق تفتیش جاری رکھی ہوئی تھی۔

کومی نے کہا کہ امریکی خفیہ برادری کی ’’انتہائی پُراعتماد رائے‘‘ میں روس نے انتخابی مہم میں مداخلت کی، تاکہ ٹرمپ اپنی مدمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو شکست دیں۔ ’’یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘‘۔

اپنے ابتدائی بیان میں کومی نے تفصیل بیان کی کہ ٹرمپ کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد، جنوری میں وائٹ ہاؤس میں رات کے کھانے میں کس طرح صدر نے اُنھیں کہا تھا کہ ’’مجھے وفاداری چاہیئے، مجھے وفاداری کی توقع ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اس کے بعد، تکلیف دہ خاموشی چھا گئی۔ میں ساکت رہ گیا، کچھ نہیں کہا، نا ہی اپنے چہرے سے کسی طرح کا کوئی تاثر دیا۔ بس، ہم خاموش ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے‘‘۔

کمیٹی کے چوٹی کے ڈیموکریٹ سینیٹر، مارک وارنر نے، جن کا تعلق ورجینیا سے ہے، ٹرمپ کے مکالمے کو، جسے کومی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا، ’’انتہائی پریشان کُن‘‘ قرار دیا۔

ایک اور جگہ، کومی نے گواہی دی کہ 14 فروری کو ٹرمپ نے مائیکل فلن کی تفتیش ’’بند کرنے‘‘ کے لیے کہا؛ جنھیں ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر نکالا گیا تھا کہ اُنھوں نے واشنگٹن میں تعینات روس کے سفیر سے ہونے والی اپنی گفتگو کے بارے میں ایک روز قبل نائب صدر مائیک پینس سے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔

کومی نے بتایا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’مجھے امید ہے کہ آپ کوئی راہ نکال لیں گے کہ یہ معاملہ ختم ہو، فلن چھوٹ جائے’’۔ کومی نے ٹرمپ کے الفاظ نقل کیے کہ ’’وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ آپ اس معاملے کو رفع کر دیں گے‘‘۔

ایک سوال پر، کومی نے تسلیم کیا کہ ٹرمپ نے حکم نہیں کیا کہ وہ روس کے ساتھ فلن کے رابطوں کی چھان بین کے معاملے کو ختم کردیں۔ لیکن، بتایا کہ ’’میں نے اِسے ہدایت سمجھا۔ یہی بات تھی جو وہ مجھ سے چاہتے تھے‘‘، حالانکہ کومی نے کہا کہ اُنھوں نے تفتیش کا معاملہ بند نہیں کیا۔

کومی نے کہا کہ فلن کی تفتیش ’’بند کرنے‘‘ کی ٹرمپ کی درخواست سن کر وہ ’’ششدر رہ گئے‘‘؛ اور اُس وقت وہ ٹرمپ سے یہ نہیں کہہ پائے کہ ’’مسٹر پریزیڈنٹ، یہ بات غلط ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ٹرمپ کے کلمات پر ایف بی آئی کےدیگر ساتھی بھی اُن کی طرح ’’صدمے اور پریشانی کی کیفیت میں تھے‘‘؛ یہ کہنا کہ فلن کی چھان بین بند کی جائے۔

کومی نے کہا کہ 30 مارچ کی ٹیلی فون کال میں ٹرمپ نے ’’روس کے خلاف تفتیش کو ’ایک بادل‘ کی مانند قرار دیا، جس کے نتیجے میں اُن کی اپنے ملک کی جانب سے اقدام کی صلاحیت چھن سی گئی ہے۔۔۔ اُنھوں نے کہا کہ اس بادل کو ہٹانے کے سلسلے میں ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؛ اس کا بہت فائدہ ہوگا اگر ہم کسی نتیجے پر پہنچیں، یہی بہتر ہوگا۔ اُنھوں نے اتفاق کیا، لیکن پھر یہ معاملہ اٹھایا کہ یہ اُن کے لیے یہ پریشانی کا باعث ہے‘‘۔