دم دار ستارے کو آپ نے سائنس فکشن فلموں میں دیکھا ہوگا۔ لیکن، اس ہفتے اس شاذ و نادر نظر آنے والے ستارے کو واشنگٹن ڈی سی کے آسمان پر چمکتے ہوئے دیکھا جا سکے گا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ اتنا چمکتا ہوا دم دار ستارہ دہائیوں بعد نظر آتا ہے۔ 1990ء کی دہائی کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ لوگ ایسے ستارے کو دیکھ سکیں گے۔
امریکہ کے قومی خلائی ادارے ناسا کے مطابق، انسانی آنکھ اس ستارے کو علی الصبح دیکھ سکتی ہے۔ اور یہ سلسلہ اس ہفتے کسی شام سورج کے غروب ہونے کے بعد شروع ہوگا۔
شمالی کرہ ارض میں یہ ستارہ آئندہ تین ہفتوں تک دیکھا جا سکے گا۔
ناسا کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ نظام شمسی کے دور دراز کونے سے آنے والا یہ ستارہ تین جولائی کو سورج کی طرف گیا جہاں سے واپسی پر یہ زمین کے مدار سے گزرتا ہوا اگست کے وسط تک نظام شمسی کے دوسرے دور افتادہ کونوں کی جانب رخ کرے گا۔
اس ہفتے نظر آنے والے ستارے کا نام اسے دریافت کرنے والے سیارے نیووائز کے نام پر رکھا گیا ہے۔ آخری بار ایسا ستارہ 1990ء کی دہائی میں دیکھا گیا تھا جس کا نام ہیل بپ رکھا گیا تھا۔
ڈبلیو یو ایس اے 90 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ناسا کے نیووائز مشن سے وابستہ ماہر جو ماسیرو نے کہا ہے کہ عام طور پر ایسے ستارے غروب آفتاب کے 45 منٹ بعد نمودار ہوتے ہیں۔
یہ ستارہ تقریباً بیس منٹ تک چمکنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہو کر فلک سے غائب ہو جائے گا۔
ماسیرو نے بتایا کہ اس ستارے کا مدار سات ہزار سال ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اسے دوبارہ کبھی بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔
دم دار ستارے لطیف ساخت کے ہوتے ہیں اور جمی ہوئی برف اور غبار سے بنتے ہیں۔ سورج کے قریب پگھل کر گیس کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
کیتھولک یونیورسٹی میں فزکس کی پروفیسر ڈولیا ڈی میلو کہتی ہیں کہ لوگوں کو چاہیے کہ اس ستارے کو دوربین کی مدد سے دیکھیں، تاکہ انہں ایک بہتر نظارہ دیکھنے کو ملے۔ اور یہ کہ کیمرہ سے اس کی فلم بنائی جا سکتی ہے؛ لیکن ایک عام سیل فون سے فلم نہیں بنائی جا سکتی۔
اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اسے دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔
ناسا کی طرف سے اس ستارے کے نظر آنے کے بارے میں اعلان کے بعد، لوگوں میں اس سے متعلق دلچسبی بڑھ گئی ہے اور بدھ کو ہونے والی ناسا کی بریفنگ کو ہزاروں افراد نے سوشل میڈیا پر دیکھا اور سوالات کیے۔