سی این این کے معروف اینکر کرس کومو اپنے بھائی کی مبینہ حمایت پر معطل

سی این این کے معروف اینکر کرس کومو (فائل فوٹو)

ایک طرف خاندان ہے اور دوسری طرف بطور صحافی آپ کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں۔ سی این این کے چوٹی کے میزبان کرس کومو کو اپنے بھائی، نیویارک کے مستعفی ہونے والے گورنر اینڈریو کومو کے ساتھ وابستگی کی قیمت چکانا پڑ گئی۔

کرس کومو کا شو منگل کو آف ائر کرتے ہوئے ادارے نے کہا ہے کہ نیو یارک کی اٹارنی جنرل کی طرف سے جاری کردہ مواد میں ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے سابق گورنر کے دفاع میں، مبینہ طور پر، اہم کردار ادا کیا۔

تحقیقات کاروں کے سامنے ای میلز کے متن اور کرس کومو کی شہادتوں سے ظاہر ہوا ہے کہ کرس کومو، مستعفی ہونے والے اپنے گورنر بھائی اینڈریو کومو کے معاونین کے ساتھ تسلسل سے منصوبہ بندی کا حصہ رہے اور ان کو یہ سمجھانے میں کردار ادا کیا کہ سابق گورنر پر خواتین کو ہراساں کرنے کے الزامات کے بارے میں دیگر صحافی کیا کہہ رہے ہیں۔

نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کومو جن کو خواتین کو ہراساں کرنے کی رپورٹ پر مستعفی ہونا پڑا

کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) کا کہنا ہے کہ کرس کومو اس معاملے میں بہت زیادہ شریک رہے ہیں۔

’’لہٰذا، ہم نے کرس کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے۔ مزید جانچ پڑتال ہونا باقی ہے‘‘ یہ کہنا تھا سی این این کے ترجمان کا۔

کرس کومو یا ریاست کی اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز کے لیے تفتتیش کاروں کے سامنے ان کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے اپنا ردعمل نہیں دیا، جبکہ اس ضمن میں ان کا موقف لینے کے لیے ان کو پیغامات بھجوائے گئے ہیں۔

کومو برادران نیویارک کی سیاست سے قریبی تعلق رکھتے ہیں جو ان کے والد ماریو سے شروع ہوتی ہے۔ ماریو 1982 سے لے کر 1996 تک تین مرتبہ گورنر رہے۔ اینڈریو کومو جب اس سال کے شروع میں ہراسانی کے الزامات پر مستعفی ہوئے تو وہ بھی تیسری مدت کے لیے گورنر کے عہدے پر فائز تھے۔

اینڈریو کومو نے اپنے والد ماریو کی گورنر کے عہدے کے لیے پہلی مہم کے دوران بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا تھا۔ کرس کومو نے اپنے سے تیرہ سال بڑے بھائی اینڈریو کومو کو اپنے والد کے محافظ، قابل بھروسہ ساتھی کے طور پر کام کرتے دیکھا ہے۔

کئی موقعوں پر وہ ایک دوسرے کو اپنا بہترین دوست قرار دے چکے ہیں۔

گزشتہ جولائی میں ایک شہادت کے دوران کرس کومو نے کہا تھا کہ ’’ وہ (اینڈریو) میرے بڑے بھائی ہیں اور میں ان سے اپنی زندگی سے بھی زیادہ پیار کرتا ہوں‘‘۔

SEE ALSO: اینڈریو کومو کی جگہ نیو یارک کی پہلی خاتون گورنر بننے والی کیتھی ہوکل کون ہیں؟

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اس محبت اور دوستی کے باوجود دونوں بھائیوں کے درمیان ایک مقابلے کی فضا بھی موجود تھی، یہ کہنا ہے کہ اینڈریو کی غیر مجاز سوانح ’دی کنٹینڈر‘ کے مصنف مائیکل شنائرسن کا۔ یہ سوانح عمری سال 2015 میں شائع ہوئی تھی۔

بقول شنائرسن، ’’وہ ہمیشہ ایک دوسرے کا تمسخر اڑاتے رہے، ایک دوسرے کے ساتھ طاقت آزمائی کرتے رہے۔ لیکن ان کے درمیان دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط تعلق موجود تھا''۔

اپنی تمام شہادتوں کے دوران کرس کومو اپنے خاندان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اینڈریو کومو کے اس سٹاف کے ساتھ اپنے مسلسل رابطوں کی وضاحت کریں جو گورنر کا عہدہ بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس پر کرس کومو کا جواب تھا ’’یہ میرے بھائی ہیں اور میں اپنے بھائی کی مدد کی کوشش کر رہا ہوں، جب ایک صورتحال ایسی ہے جہاں وہ مجھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے‘‘۔

SEE ALSO: جنسی ہراسانی کا الزام:ضیا چشتی کی کمپنی نے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی

ریاست نیو یارک کی اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز کی تحقیق میں ثابت ہوا تھا کہ گورنر اینڈریو کومو مبینہ طور پر کم از کم گیارہ خواتین کو ہراساں کرنے کے مرتکب ہوئے۔ کومو نے مواخذے سے بچنے کے لیے اگست میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

کرس کومو نے بتایا کہ انہوں نے ان الزامات سے متعلق آخری بار اپنے بھائی سے بات اپنی شہادت کے دوران کی تھی اور یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ آگے کیا ہو گا اور وہ اپنی نوے سالہ والدہ کو اس بارے میں کیا بتائیں گے؟

کرس کومو کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے بھائی سے متعلق اسکینڈل کے بارے میں سی این این کی کوریج پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی، جس بات کا فی الفور پتا لگایا جا سکتا ہے۔

کیتھلین کولور، یونیورسٹی آف وسکانسن میں سنٹر فار جرنلزم ایتھکس کی ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے میں جب لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ کرس کومو اپنے خاندان کی مدد کر سکتے ہیں، ان کی بنیادی ذمہ داری سی این این کے ناظرین کے نزدیک ایک صحافی کے طور پر کام کرنا ہے۔

کیتھلین کے مطابق، صحافیوں کو نیوز میکرز کے مقابلے میں ایک غیرجانبداری استوار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’کسی بھی اصطلاح میں وہ اپنے بھائی کے ساتھ تعلق میں غیر جانبدار نظر نہیں آئے، اور یہ بہت بہت بڑا مسئلہ ہے‘‘

SEE ALSO: فرانس: اب خواتین پولیس اسٹیشن جائے بغیر تشدد کی شکایت درج کرا سکیں گی

سب سے پہلے گزشتہ مئی میں واشنگٹن پوسٹ میں رپورٹ ہوا کہ کرس کومو اپنے بھائی کے ساتھیوں کے ساتھ ہیں۔ اس پر سی این این کا کہنا تھا کہ یہ چیز نا مناسب ہے۔ تاہم، انہوں نے کومو کو کسی طرح کسی ضابطے کا پابند نہیں کیا تھا۔

مز کولور کے بقول، کرس کومو ایسی اندرونی معلومات کے متلاشی رہےجو ان کے خاندان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھیں۔

سی این این نے کرس کومو سے متعلق جو حتمی فیصلہ کیا ہے، اس میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پیچیدگیاں بھی ہیں، کیونکہ اس میں اس جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ ماضی میں ادارے نے اینڈریو کومو کے مسئلے پر کیسے کام کیا اور کس طرح کرس کومو کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا۔ کرس کومو نے اپنی گواہی میں کہا تھا کہ انہوں نے سی این این کے کسی شخص کو یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے اس بڑے اسکینڈل میں سے کچھ نکالنے کے لیے دوسرے صحافیوں سے رابطہ کیا ہے۔

کنیٹیکٹ کوئنییپک یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسر بین بوگارڈس کا کہنا ہے کہ ''کرس کومو کی سی این این میں معطلی ایک صحیح اقدام ہے اور یہ ایسا اقدام ہے جو بہت پہلے لے لیا جانا چاہیے تھا۔جس قدر اس میں تاخیر ہوتی، سی این این کی ساکھ متاثر ہوتی۔‘‘

نیلسن کمپنی کے مطابق، کرس کومو کے پروگرام ’کومو پرائم ٹائم‘ کے اس سال ہر شو کے اوسطاً ایک اعشاریہ تین ملین یعنی تیرہ لاکھ ناظرین رہے ہیں۔ لیکن سال دو ہزار بیس کے انتخابات کے عرصے کی نسبت اب اس پروگرام کے ناظرین کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ تاہم، وہ اب بھی سی این این پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والے شوز میں سے ایک تھا اور کومو کی معطلی سے ایک بڑا خلا پیدا ہو سکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین کتنے مؤثر ہیں؟

اے پی کی رپورٹ میں تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ جو مشورہ کرس کومو ہراسانی کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اپنے بھائی اینڈریو کومو کو دیتے رہے ہیں اب ان کو اس مشورے کا اطلاق خود پر کرنا چاہے۔ وہ مشورہ تھا کہ صرف سچ بولیں۔

''اب بھلے کرس کومو غلط تھے یا درست، ان کو صرف سچ بولنا چاہیے۔ ان کو معافی مانگنی چاہیے اور ان کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ انہوں نے اس ساری صورتحال میں کیا سیکھا ہے۔ بھلے اس کے بعد ان کو موقع ملے یا نہ ملے،ان کو سچ بولنا چاہیے''۔