سندھ اور خاص طور سے کراچی میں سی این جی ’کلو‘ کے بجائے ’لیٹر‘ میں فروخت کرنے کا تنازع اگلے کچھ دنوں میں مزید الجھتا نظر آ رہا ہے۔ جمعرات کو کراچی کی سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اس تنازع کے بڑھنے کی جانب واضح اشارہ ہے۔
شہر میں جمعرات کو صبح ہی سے پبلک ٹرانسپورٹ کم رہی، متعدد علاقوں میں بسیں سڑکوں سے غائب رہیں جبکہ بیشتر سی این جی اسٹیشنز پر گیس بھروانے والوں کی میلوں دور تک قطاریں لگی نظر آئیں۔
ادھر کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کی جانب سے ہفتہ 13اگست کو ہڑتال کئے جانے کے ا علان نے عوام کو فکر مند کردیا ہے۔
سندھ میں سی این جی کے نرخ 50 روپے 67 پیسے ’فی کلو ‘مقرر ہیں۔ لیکن، سی این جی ڈیلرز نے از خود اس کی قیمت20 روپے 48 پیسے ‘فی لیٹر ‘کر دی ہے۔ کلو اور لیٹر کے اس ہیر پھیر سے صارفین کو اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ احتجاج کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد نے احتجاج کی غرض سے ہی ہفتے کو ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
صارفین نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سی این جی ڈیلرز کی جانب سے کئے جانے والے ہیر پھر اور پیمانے میں تبدیلی کا فوری نوٹس لے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں سی این جی کی فروخت دوبارہ کلوگرام کے پیمانے سے کروائے اور اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ڈیلرز کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
ادھر ’کنٹرولر ویٹ اینڈ میژرمنٹ سندھ‘ نے بھی سی این جی کی کلوگرام کی بجائے لیٹرز میں فروخت کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور سی این جی ایسوسی ایشن سندھ کو ایک مراسلہ بھی ارسال کیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ سندھ میں سی این جی کی لیٹرز میں فروخت کی اجاز ت نہیں۔ یہ صرف کلوگرام میں ہی فروخت ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور سی این جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے درمیان اس تنازع پر مذاکرات کا ایک دور ہوچکا ہے۔ تاہم، ابھی تک ان مذاکرات کو ناکام خیال کیا جارہا ہے۔
سی این جی ڈیلرز کے لیٹر میں فروخت کے فیصلے سے کار مالک کو اوسطاً 100 سے 150 روپے یومیہ، منی بس مالک کو 500 روپے اور بس کے مالک کو اوسطاً 1000 روپے اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔