ڈی پی او تبادلہ کیس: وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے غیر مشروط معافی مانگ لی

سپریم کورٹ (فائل فوٹو)

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کلیم امام سے مزید کہا کہ احسن جمیل نے کس حیثیت میں ڈی پی او سے وضاحت مانگی؟ آپ کو رپورٹ لکھتے ہوئے شرم کیوں نہیں آئی؟

سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں پنجاب پولیس کے سابق آئی جی کلیم امام کی تحقیقاتی رپورٹ "ردی کا ٹکڑا" قرار دے کر مسترد کر دی ہے جب کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب اور دیگر نے عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہو کر غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے پیر کو ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی رپورٹ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس سربراہ کو اپنی اتھارٹی کی کوئی پرواہ نہیں۔ اعتماد کر کے کتنی اہم انکوائری سپرد کی تھی۔ رپورٹ میں "سب اچھا" کہا گیا۔

چیف جسٹس نے کلیم امام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کی بدنیتی پر مبنی رپورٹ کا لکھ دیا تو پولیس فورس میں نہیں رہیں گے۔ پولیس کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ احسن گجر کی جرات کیسے ہوئی کہ آئی جی سے تبادلے کا کہتا؟ وزیرِ اعلٰی نے کس حیثیت سے پولیس افسران کو طلب کیا اور اپنے سامنے انہیں ذلیل کرایا؟

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کلیم امام سے مزید کہا کہ احسن جمیل نے کس حیثیت میں ڈی پی او سے وضاحت مانگی؟ آپ کو رپورٹ لکھتے ہوئے شرم کیوں نہیں آئی؟

انہوں نے کلیم امام کو حکم دیا کہ آئی جی صاحب اپنے بیج اتار دیں۔ ڈی پی او پاک پتن کا رات ایک بجے مشکوک انداز میں تبادلہ ہوا۔ آپ کہتے ہیں کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔

کلیم امام نے کہا کہ انہوں نے ڈی پی او کا تبادلہ نہیں کیا۔ احسن گجر بچوں کا سرپرست ہے۔ وہ لڑکی کے لیے دکھی تھا۔

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سب دکھی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ان بچوں کا باپ فوت ہوگیا ہے؟ احسن جمیل کے پاس کوئی 'گارڈین سرٹیفکیٹ' دیکھا؟ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلاتے ہیں۔ کیا آپ کہیں سے بھی آئی جی لگنے کے قابل ہیں؟ واقعہ کی انکوائری کسی اور کو دیتے ہیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور احسن گجر سمیت تمام فریق آج ہی عدالت میں پیش ہوں۔

وقفے کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور احسن گجر عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں احسن گجر کا کہنا تھا کہ ان کی وجہ سے وزیرِ اعلیٰ کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ وہ ایک سائل کی حیثیت سے وزیرِ اعلیٰ کے پاس گئے تھے۔

سماعت شروع ہوئی تو ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ڈی پی او کے تبادلے والے واقعے سے قبل وزیرِ اعلیٰ کو ذمہ داریاں سنبھالے صرف تین دن ہوئے تھے۔ کام کے طریقۂ کار علم نہیں تھا۔ طریقۂ کار سمجھا دیا ہے، ایک مرتبہ موقع دیا جائے۔

اس موقع پر وزیرِ اعلیٰ نے بینچ کے سامنے کہا کہ وہ عدالت میں اور عدالت سے باہر اپنے رویے پر معافی مانگتے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ جب سے وزیرِ اعلیٰ بنا ہوں لوگوں سے خود ملتا ہوں۔ اس ملاقات کے دوران بھی اپنے ہاتھ سے پولیس افسران کو چائے پیش کی۔ پولیس افسران کو کہا کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ پولیس کو کہا معاملے کا خود جائزہ لیں۔

وزیرِ اعلیٰ نے عدالت کو بتایا کہ احسن جمیل گجر کے مانیکا فیملی کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کلیم امام نے صرف پولیس افسران کی ذلت کرائی۔ رات کو کیوں کہا کہ مجھے صبح اس پولیس افسر کی شکل نہ دکھائی دے؟ اس پر وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ میں نے کوئی ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ صاحب! سب رابطے کھل کر سامنے آجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس افسر کیوں کسی کے ڈیرے پر جائیں؟ کیا اس انداز سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو چلانا ہے؟ احسن جمیل نے ڈی پی او کو ڈیرے پر جانے کا کہا۔

اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ڈی پی او نے ڈیرے پر جانے کا خود سے اخذ کیا۔ آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ عدالت درگزر کرے۔

اس دوران روسٹرم پر کھڑے عثمان بزدار چہرے سے پسینہ صاف کرتے رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رات گئے تبادلے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں اجلاس غیر اخلاقی تھا۔ غیر اخلاقی اجلاس پر آرٹیکل 62 ون ایف لگ سکتا ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے پولیس افسر خالد لک کو اس معاملے کی تحقیقات کرکے 15 دن میں رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ خاتونِ اول بشریٰ بی بی اور ان کے سابق شوہر خاور مانیکا کے بچوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی پر پنجاب حکومت نے ضلع پاک پتن کے اس وقت کے پولیس سربراہ رضوان گوندل کا تبادلہ کیا تھا۔

تبادلے کے لیے سیاسی دباؤ ڈالے جانے کی اطلاعات کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی تھی۔

لیکن اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکوائری افسر اور اس وقت کے آئی جی پولیس پنجاب کلیم امام نے معاملے کے تمام کرداروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ نے پولیس افسران کو ایک بڑے کے طور پر طلب کیا تھا تاکہ قبائلی روایات کے تحت معاملہ حل ہو۔ اس دوران پولیس افسر ہراساں نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں کسی دبائو کا احساس ہوا۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 24 اگست کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے متعلقہ پولیس افسروں کو آئی جی پنجاب کے علم میں لائے بغیر رات 10 بجے طلب کیا۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ آئندہ وزیرِ اعلیٰ کسی بھی پولیس افسر کو براہِ راست دفتر نہ بلائیں اور آئی جی کی ہدایت کے بغیر افسر کو وزیرِ اعلیٰ، وزرا، دیگر سرکاری دفاتر میں جانے کی اجازت نہ ہو۔

بعد ازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اس کیس سے متعلق کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ تو اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے پہلے ہی عدالت آنا چاہتے تھے اور اب عدالت نے بلایا ہے تو آ گئے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ اس معاملے میں اپنے کردار کے بارے میں کیے جانے والے سوالات کے جواب میں بار بار کہتے رہے کہ یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔