پاکستان، افغان سول حکومتوں کی مضبوطی کے لیے کوشاں ہیں: کلنٹن

18 جنوری 2011، وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کے اجلاس سے خطاب کررہی ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں حالات بہتر بنانے کے لیے امریکہ سہ رخی پالیسی پر کام کر رہا ہے جس کے تحت جہاں ایک طرف زمینی فوج کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف افغانستان اور پاکستان میں سول سوسائٹی اور شہری حکومتوں کو مضبوط بنانے کے لیے معاشی امداد دی جا رہی ہے اور تیسری طرف افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے امریکہ نے عالمی سطح پر اپنی سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

وزیر خارجہ کلنٹن نیو یارک کی ایشیاء سوسائٹی میں افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی پالیسی کے بارے میں خطاب کر رہی تھیں۔ یہ خطابات کے اُس نئے سلسلے کا آغاز تھا جو رچرڈ ہولبروک کی یاد میں ایشیاء سوسائٹی میں شروع کیا گیا ہے۔

رچرڈ ہولبروک، جو اپنی وفات کے وقت افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھے، ایشیاء سوسائٹی سے چار دہائیوں تک وابستہ رہے تھے اور اس کے چیئرمین بھی رہے تھے۔

اپنے خطاب کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے مسٹر ہولبروک کی جگہ لینے والے نئے سفارت کار مارک گروسمین کا تعارف بھی کرایا۔

اپنی انتظامیہ کی پالیسی کی تفصیل بتاتے ہوئے مسز کلنٹن نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافے سے کابل، ہلمند اور قندھار جیسے علاقوں میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ دوسری طرف گیارہ سو سے زائد امریکی ماہرین افغانستان میں شہری حکومت کی مدد کے لیے موجود ہیں جو نہ صرف زراعت، ملکی ڈھانچے کی تعمیر اور منشیات کی تجارت کو روکنے میں افغان حکومت کی مدد کر رہے ہیں بلکہ افغان سول ملازمین کی تربیت بھی کر رہے ہیں۔

ہلری کلنٹن نے امید ظاہر کی کہ فوجی و غیر فوجی اقدامات میں کامیابی سے افغانستان میں جاری لڑائی کو ختم کرنے کی سیاسی و سفارتی کوششوں کو مدد ملے گی۔

ان سفارتی کوششوں کے ایک قدم کے طور پر اگلے ماہ اسلامی ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس کی دعوت پر امریکی انتظامیہ کے نمائندے جدّہ میں چالیس ممالک اور عالمی تنظیموں پر مشتمل انٹرنیشنل کونٹیکٹ گروپ کے ارکان سے ملاقات کریں گے۔ افغانستان سے امن جرگے کے لیڈر بھی اس ملاقات میں شریک ہوں گے اور افغانستان میں صلح کے کی کوششوں پر بات چیت ہوگی۔

امریکہ کا موقف ہے کہ افغانستان میں ایسے طالبان یا شدت پسندوں سے صلح کی جا سکتی ہے جو تشدد کو خیرباد کہہ کر افغان آئین کے تحت زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جائیں۔

اس سلسلے میں پاکستان کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘‘صلح کی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک پاکستان ان کوششوں کا حصہ نہ ہو۔’’

انہوں نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ امریکہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا اور اگرچہ زیادہ تر امریکی فوجی 2014 تک افغانستان سے واپس بلا لیے جائیں گے لیکن امریکہ اس خطے کو مستحکم بنانے کے لیے غیر فوجی امداد جاری رکھے گا۔

سٹریٹیجک معلومات کا تجزیہ کرنےوالی فرم سٹریٹفور کے سینئیر تجزیہ کار کامران بخاری نے امریکی وزیر خارجہ کے خطاب پر بات کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کہ سہہ رخی پالیسی کس حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق اس کا پتہ اگلے چند ماہ میں چلے گا جب موسم سرما کا زور ٹوٹے گا اور افغانستان میں برف پگھلے گی کہ طالبان میں امریکی افواج پر حملے کرنے کی کتنی صلاحیت باقی ہے۔