اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے منگل کے روز امریکی صدر براک اوباما کی ’دانشمندانہ اور جراٴتمندانہ قائدانہ صلاحیتوں‘ کی تعریف کی ہے، جنھوں نے، بقول اُن کے، کاربن کی آلودگی میں خاصی کمی لانے کے لیے امریکی بجلی گھروں کو ضابطوں کا پابند بنانے کے پالیسی کا اعلان کیا ہے۔
مسٹر اوباما نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کاربن کے اخراج کو 2005ء کی سطح پر لانے کے لیے 2030ء تک 32فی صد کی کمی لائی جائے، جس کی امریکہ کے اہم صنعتی گروپ مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ’بہت مہنگا اور غیرقانونی‘ معاملہ ہے۔
وائٹ ہاؤس میں مسٹر اوباما سے ملاقات کے بعد، اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے، میں صدر اوباما کے ٹھوس عزم کو سراہتا ہوں، جس کا مظاہرہ اُنھوں نے اقتدار میں آنے کے پہلی ہی دِن سے کر رکھا ہے‘۔
مسٹر اوباما نے کہا ہے کہ دنیا کو جو مشکلات درپیش ہیں اُن میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث ماحولیات کو لاحق خطرات شامل ہیں۔
امریکی سربراہ نے کہا ہے کہ عالمی ماحولیاتی معیار کے موضوع پر دسمبر میں پیرس میں منعقد ہونے والے اجلاس کو ’کامیاب بنایا جانا چاہیئے‘۔
دونوں رہنماؤں نے کہا ہے کہ اُنھوں نے شام، یمن، لیبیا اور جنوبی سوڈان کے دیگر عالمی بحرانوں پر گفتگو کی۔
مسٹر اوباما نے کہا ہے کہ جنوبی سوڈان میں استحکام کے مواقع ضائع کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے متحارب دھڑوں پر زور دیا کہ وہ 17 اگست تک لڑائی کے خاتمے کے لیے سمجھوتا طے کریں، وگرنہ دنیا کے ملک کوئی اور حل ڈھونڈنے پر مجبور ہوں گے۔
مسٹر بان نے کہا کہ وسیع تر امور کے حوالے سے وہ اور صدر اوباما کی سوچ ’مکمل طور پر یکساں ہے‘۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں اور حکومت کی حامی افواج کی جانب سے مارچ میں سعودی عرب بھاگ نکلنے والے یمنی صدر اعبدو ربو منصور ہادی کی خاطر قبضہ چھڑانے کی لڑائی کا ’کوئی فوجی حل‘ نہیں۔
مسٹر بان کے بقول، ’صرف ایک ہی حل ہے، اور وہ ہے سیاسی (حل)‘۔
دونوں رہنماؤں کے مابین آج کی یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب دونوں رہنما اپنے اپنے ایجنڈے کی دو اہم سماجی حکمت عملیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
مسٹر اوباما نے پیر کے روز ایک منصوبے کا افتتاح کیا جس نئے منصوبے کا مقصد سنہ 2030 تک امریکہ کی بجلی کی تنصیبات سے کاربن کے اخراج میں 32 فی صد کی کمی لانا ہے، جس سلسلے میں مجوزہ ضابطوں کا ایک سلسلہ لاگو کیا گیا ہے۔
مسٹر بان عالمی ترقیات کے ایک نئے سمجھوتے کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں، جو اقوام متحدہ کے 193 رُکن ملکوں نے اتوار کو طے کیا ہے، جس میں غربت کے خاتمے، جنسی برابری کا حصول اور 2030ء تک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے کام کریں گے۔