چین نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے پر عمل درآمد سے وابستہ ہے۔
چین کی جانب سے اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے پیش رو صدر اوباما کے آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق ضابطوں کی تنسخ کے ایکزیکٹو آرڈر پر دستخط ہونے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے کہا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنا پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج ہے اور چین اس کے باوجود اپنے اس وعدے پر قائم رہے گا چاہے دوسری حکومتیں اپنی پالیسیوں سے منحرف ہی کیوں نہ ہوجائیں۔
ٹرمپ کے ایکزیکٹو آرڈر نے اس بارے میں بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا انسانی سرگرمیاں کرہ ارض پر رونما ہونے والی آب و ہوا کی تبدیلی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں کئی عشروں سے کی جانے والی عالمی معاہدے رائیگاں جا سکتے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ گرین ہاؤس گیسوں سے متعلق اوباما انتظامیہ کی پالیسیوں کو پلٹ رہے ہیں ۔ منگل کے روز دستخط ہونے والے ایک ایکزیکٹیو آرڈر کا ہدف پاور پلانٹ سے خارج ہونےوالی گیسوں سے متعلق ضابطے اور وہ دوسری پالیسیاں ہیں جن کے بارے میں اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان سے اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ ماحولیات سے متعلق گروپس کہتے ہیں کہ صدر آب و ہوا کی تبدیلی کے سنگین خطرے کو نظر انداز کر رہے ہیں اور وہ اس حکمنامے کو چیلنج کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے امریکی پاور پلانٹس سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے مقصد سے بنائے گئے ضابطےاز سر نو تحریر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مقصد صرف اور صرف روزگار واپس لانا ہے۔
أوباما انتظامیہ نے 2030 تک پاور پلانٹس سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج 2005 کے درجوں سے دو تہائی تک کم کرنے کا ہدف بنایا تھا۔
ٹرمپ کا ایکزیکٹیو آرڈر کوئلے ، تیل اور گیس کی پیداوار پر لاگو ضابطے بھی ختم کرتا ہے اور دوسرے وفاقی ضابطوں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے کردار میں کمی کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بجٹ ڈائریکٹر مائک ملوانی کہتے ہیں کہ جہاں تک آب و ہوا کی تبدیلی کا سوال ہے تو میرا خیال ہے کہ صدر نے کافی صاف صاف بات کی۔ ہم اس پر اب پیسہ خرچ نہیں کر رہے۔ ہم اسے آپ کے پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ اس سائنسی اتفاق رائے سے اختلاف رکھتی ہے کہ انسان کی سر گرمیوں سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں کرہ ارض کو خطرناک طریقے سے گرم کر رہی ہیں۔
اور اینوائرن مینٹل ڈیفینسفنڈ کے پالیسی چیف ٹومس کاربونل کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ پہلے ہی تین الگ واقعات میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ شفاف ہوا سے متعلق کلین ایئیر ایکٹ کے تحت ماحولیات کے تحفظ سے متعلق ادارے ای پی اےکو یہ اختیار حاصل ہے اور اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے سے نمٹے۔
ضابطہ سازوں کو اب ان ضابطوں کی جگہ نئے ضابطے تحریر کرنا ہوں گے جنہیں صدر نے ختم کر دیا ہے ۔ ماحولیات سے متعلق گروپس کو توقع ہے کہ وہ انہیں عدالت میں چیلنج کریں گے۔
یہ حکمنامہ امریکہ کو آب و ہوا سے متعلق پیرس معاہدے سے الگ نہیں کرتا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ پیرس کے اپنے اہداف پورا کرے گا۔