پاکستان کے شمالی مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں آباد کالاش برادری سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کے مسلمان ہونے کے معاملے پر جمعرات کو مقامی مسلمان اور کالاش برادری کے درمیان کشیدگی دیکھی گئی۔
تاہم مقامی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو علما، مقامی عمائدین اور انتظامیہ کی مدد سے پر امن طور پر حل کر لیا گیا ہے۔
چترال کے ضلعی نائب ناظم عبدالشکور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دو روز قبل کالاش اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی نے اسلام قبول کیا تھا جس سے اس کے اہل خانہ اور برادری میں تشویش پیدا ہو گئی۔
انہوں بتایا کہ ذرائع ابلاغ میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ لڑکی پر دباؤ ڈال کر اسے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور جب اس نے دوبارہ اپنا آبائی مذہب اخیتار کرنے کی کوشش کی تو مقامی مسلم برادری میں اشتعال پیدا ہو گیا۔
اطلاعات کے مطابق اس دوران مشتعل ہجوم نے اس گھر پر پتھروں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا جہاں وہ لڑکی پولیس کو اپنا بیان دینے گئی تھی۔
ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس بھی استعمال کرنی پڑی۔
تاہم عبدالشکور کا کہنا تھا کہ ضلعی پولیس اور انتظامیہ نے اس مسئلے کو افہام و تفیہم سے حل کرنے کے لیے دونوں جانب کے عمائدین سے ملاقاتیں کیں۔
’’پھر ہم اس لڑکی سے خود ملے۔ اس سے ہم نے پوچھا کہ اگر آپ نے اسلام قبول کیا ہے تو آپ خود بتائیں جس پر اس نے بتایا کہ میں بغیر کسی زور زبردستی کے دو دن پہلے اسلام قبول کر چکی ہوں اور اپنے پہلے مذہب میں واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ناصرف لڑکی نے جمعہ کو عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے بلکہ ایک پریس کانفرنس بھی کی ہے جس میں اس نے وضاحت کی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے شریک چیئر پرسن کامران عارف نے بتایا کہ کالاش برادری کی اپنی منفرد زبان اور مذہب ہے مگر اس برادری کے بہت سے افراد نے مقامی آبادی کے زیر اثر اسلام قبول کیا ہے جس سے اس کی تعداد کم ہو کر صرف چار ہزار تک رہ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنا ہر بالغ شخص کا حق ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا ہر کیس میں یہ ضرور تحقیق کر لینی چاہیئے کہ کسی شخص کو دباؤ ڈال کر یا لالچ دے کر اس کا مذہب تو تبدیل نہیں کروایا جا رہا، خصوصاً اگر اس وہ کم عمر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں قابل تشویش بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ مقامی مسلمانوں کا وہاں جمع ہو کر کالاش برادری پر دباؤ ڈالا۔
انہوں نے کہا کہ وادی میں آباد کالاش برادری کا تحفظ حکومت کا فرض ہے۔