میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں: چیف جسٹس ثاقب نثار

پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو کچھ دیا جائے۔ ہماری نیت بالکل صاف ہے۔ جس طرح مرضی چاہیں ہمارا امتحان لے لیں۔ تمام وکلا کو بھی کہتا ہوں کہ ہماری مدد کریں۔

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ خدا کی قسم میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ عوام کو دو وقت کی روٹی اور صاف پانی مل جائے۔ کسی سیاسی کیس کو ہاتھ لگانا نہیں چاہتے۔ لیکن مجبوری ہے ہمیں وہ مقدمات بھی سننا پڑتے ہیں۔

چیف جسٹس یہ ریمارکس منگل کو ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران دیے۔ سماعت تین رکنی بینچ نے کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ عوام کو سستی ادویات ملیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو کچھ دیا جائے۔ ہماری نیت بالکل صاف ہے۔ جس طرح مرضی چاہیں ہمارا امتحان لے لیں۔ تمام وکلا کو بھی کہتا ہوں کہ ہماری مدد کریں۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ دواؤں کی وہ قیمت متعین کی جائے جو عوام پر بوجھ نہ بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے پاس از خود قیمت بڑھانے کا اختیار نہیں۔ پہلے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کمپنیوں سے ملی ہوئی تھی۔ ملی بھگت کے تحت کمپنیوں کو عدالتوں سے ریلیف دلایا جاتا رہا۔ لگتا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کیس کی طرح مل جل کر کام ہورہا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ڈرگ پالیسی کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ تمام امور کی نگرانی خود سپریم کورٹ کرے گی۔ دیگر عدالتوں کو بھی گائیڈ لائن فراہم کریں گے۔ گائیڈ لائن کا مقصد بلاوجہ کے اسٹے آرڈر جاری کرنے سے روکنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنیوں کو حاصل تمام حکمِ امتناعی خارج کر دیں گے۔ ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنا عدالت کا کام نہیں۔ کمپنیوں کو جائز منافع ملنا چاہیے اور ان کا کاروبار متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تمام درخواستوں پر جلد از جلد فیصلہ کرے۔ کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ڈریپ کو تمام کام شفافیت اور ایمانداری سے کرنا ہو گا۔

دورانِ سماعت ادویہ ساز کمپنیوں کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ ڈریپ قیمتوں میں اضافہ، پالیسی کے برخلاف کرتی ہے۔

عدالت نے تمام کمپنیوں کو قیمتوں کا فارمولا طے کر کے آگاہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔

میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت

دریں اثنا سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کیس کی سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عدالت کو بتایا ہے کہ حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مقدمہ اب تک درج کیوں نہیں ہوا؟ رپورٹ آئے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں۔ پیش رفت نہ ہوئی تو آئندہ سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے خود پیش ہوں۔

فائل فوٹو

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے معاملے کی ان چیمبر سماعت کی درخواست بھی سپریم کورٹ نے منظور کرلی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انٹرپول نے 22 فروری کو چند سوالات اٹھائے ہیں۔ انٹرپول نے جوڈیشل ریکارڈ بھی مانگا ہے۔ میڈیا پر اطلاعات ملتے ہی حسین حقانی متحرک ہوتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف لابی متحرک ہوجاتی ہے۔ عدالت مناسب سمجھے تو سماعت چیمبر میں کرے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں اپنے چیمبر میں طلب کرلیا اور ریمارکس دیے کہ ملک پر اللہ کی مہربانی ہے تو کہ کوئی لابی کچھ نہیں کرسکتی۔ بے خوف و خطر ہو کر کام کرتے ہیں۔

اس سے قبل دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر طفر اللہ نے مؤقف اختیار کیا کہ آٹھ سال سے حسین حقانی کو واپس نہیں لایا جاسکا۔ جو مواد ریکارڈ پر ہے وہ انٹرپول کو ارسال کردیا جائے۔ حسین حقانی فواجداری کیس میں مفرور ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی کی دہری شہریت کا معلوم نہیں۔ کمیشن رپورٹ کے بعد حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ ضروری اقدامات کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن رپورٹ کی بنیاد پر ایف آئی اے مقدمہ درج کرانا چاہتی ہے۔ میمو کمیشن رپورٹ کی روشنی میں حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مقدمہ اب تک درج کیوں نہیں ہوا؟ رپورٹ آئے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں۔ پیش رفت نہ ہوئی تو آئندہ سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے خود پیش ہوں۔

بعد ازاں کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔

سپریم کورٹ نے دو فروری کو امریکہ میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حوالے سے متنازع میمو گیٹ کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

میموگیٹ اسکینڈل 2011ء میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔

یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کی غرض سے حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔

اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔