امریکی نوجوانوں میں ایشیائی کھانوں کی مقبولیت

نیوجرسی میں ایلکس کریسولس پیزے کےسلائس سے لطف انددز ہ و رہے ہیں ۔ فائل فوٹو

جوں جوں امریکہ میں آبادی کا نسلی تنوع بڑھتا جا رہا ہے،مختلف نسلی گروہوں کےپکوانوں پر مبنی کھانے شہریوں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ امریکہ میں کئی نسلوں سے اطالوی کھانے سب سے مقبول رہے ہیں لیکن نئے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ نوجوان امریکی نسل اب نئے ذائقوں سے متعارف ہو رہی ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق،میلینئلز کہلانے والے 27 سے42 سالہ امریکی اب یہ کہتےنظر آتے ہیں کہ وہ اطالوی کھانوں پر میکسیکن کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ جینریشن زی کہلانے والے 8 سے 23 سال کے نوجوان اطالوی پیزے اور لزانیہ کی بجائے ٹاکوز اور میکسیکو کے کھانوں کو زیادہ پسند کر رہے ہیں۔

شکاگو میں قائم مارکیٹ ریسرچ فرم کے ٹرینڈولوجسٹ اور ڈیٹاسینشل کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مائیک کوسٹیو کا کہنا ہے کہ جب سے ہم نے صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا ہے یہ تبدیلی پہلی بار اس نسل میں دیکھنے میں آئی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکہ کی کل آبادی کا 82 فیصد اب بھی اطالوی کھانوں کا شوقین ہے لیکن 27 سے42 سالہ امریکیوں نے اپنی پسندیدگی کی فہرست میں میکسیکن کھانوں کو پہلے، اطالوی کھانوں کو دوسرے اور چینی کھانوں کو تیسرے نمبر پر جگہ دی ہے ۔ جینریشن زی کہلانے والے میکسیکن کھانوں کو پہلے، چینی کھانوں کو دوسرے اور اطالوی پکوانوں کو تیسرے نمبر پر رکھتے ہیں ۔ اس نوجوان نسل کو ان کے یہ پسندیدہ کھانے امریکہ میں تقریباً ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہیں کیونکہ امریکہ کے تمام ریستورانوں میں سے 12 فیصد میں کسی نہ کسی طرح کا ایشیائی کھانا دستیاب ہے ۔

لاس اینجلس میں لوگ ایک فود ٹرک سے ٹاکوز خرید رہے ہیں۔ فائل فوٹو

پیو ریسرچ کے ایک مطالعے کے مطابق، امریکہ کے 10 میں سے سات ایشیائی ریستوران چینی ،جاپانی یا تھائی کھانا پیش کرتے ہیں۔

اس جائزے کے مرکزی مصنف، سونو شاہ کہتے ہیں، "چینی ریستوران سب سے زیادہ مقبول ہیں ، اس لیے وہ ہر ریاست کی تمام کاؤنٹیز میں پائے جاتے ہیں۔امریکہ میں نوجوانوں کی اس بدلتی ہوئی پسند کے پیچھے آبادی کے مختلف گروہوں کی بڑھتی اور کم ہوتی تعداد کا اہم کردار ہے۔

مردم شماری کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ دہائی میں امریکہ میں رہنے والی لاطینی آبادی میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 2020 کی مردم شماری یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ایشیائی، امریکی آبادی کا 6.2 فی صد ہیں۔تاہم ان کھانوں کی مقبولیت کے پیچھے شعوری کوششیں بھی ہو سکتی ہیں ۔

جاپان کی ایک روایتی ڈش۔ فائل فوٹو

سونو شاہ کہتے ہیں، "کھانا لوگوں کے مل بیٹھنے ،ایک دوسرے سے گفتگو اور کسی بھی ثقافت کو سمجھنے کا اہم جزو ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تھائی حکومت نے سفارت کاری کی ایک شکل کے طور پر دنیا بھر میں تھائی ریستورانوں کی تعداد بڑھانے کے لیے بیرون ملک پروگراموں کو سپانسر کیا ہے۔

اس تبدیلی کا ایک اور اہم محرک سوشل میڈیا بھی ہے، جہاں نوجوان اکثر آن لائن اپنے کھانوں کو شیئر کرتے ہیں۔ مائیک کوسٹیو ک کہتے ہیں کہ اٹلی کے پیزا اور لزانیہ کی جگہ دیگر ایشیائی ملکوں کی ڈشز کی پسندیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ تبدیلی آئندہ دس یا بیس برسوں میں زیادہ نمایا ں نظر آئے گی ۔

(وی او اے نیوز)