بلند کولسٹرول کا شکار زیادہ تر لوگ علاج نہیں کرا پاتے

بلند کولسٹرول کا شکار زیادہ تر لوگ علاج نہیں کرا پاتے

عالمی ادارہٴ صحت کی طرف سےشائع ہونے والی ایک اہم مطالعاتی رپورٹ کے مطابق کولسٹرول کی بیماری کے شکار زیادہ تر لوگوں کو علاج کی ضروری سہولیات میسر نہیں ہیں۔

یہ اب تک ہونے والی سب سے وسیع تر مطالعاتی رپورٹ ہے جس میں انگلینڈ، جرمنی، جاپان، اردن، میکسیکو، اسکاٹلینڈ، تھائی لینڈ اور امریکہ جیسے ملکوں کے ساڑھے 14کروڑ سے زائد لوگوں نے حصہ لیا۔

بلند کولسٹرول کا شکار زیادہ تر لوگ علاج نہیں کرا پاتے

مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کولسٹرول کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی اکثریت کا علاج نہیں ہوپاتا، جس کے باعث یہ پھیلتی ہوئی بیماری ایک دائمی وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، جیسا کہ عارضہٴ قلب یا دل کا حملہ۔

مثال کے طور پر، اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ تھائی لینڈ میں بلند کولسٹرول کے شکار 78فی صد لوگوں کی تشخیص ہی نہیں ہو پائی، جب کہ جاپان کے53فی صد افراد کی تشخیص تو کر لی گئی ہے تاہم اُن کا علاج نہیں ہوا۔
صحت کے عالمی ادارے کی دائمی بیماریوں اور صحت کے فروغ کے محکمے کی کوآرڈینیٹر ، ڈاکٹر شانتھی مینڈز نے بتایا ہے کہ بلند کولسٹرول کی بیماری امیر ملکوں کی بانسبت غریب ممالک کے لوگوں کو زیادہ متاثر کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اِس فرق کو علاج معالجے کی عدم دستیابی کے فرق سے بخوبی جوڑا جاسکتا ہے، جو امیر ممالک کے مقابلے میں ترقی پذیر ملکوں میں بہت زیادہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اِس کا ایک سبب یہ ہے کہ غریب ممالک میں لوگ اس بات پر دھیان ہی نہیں دیتے کہ40برس کو پہنچنے کے بعد

اُن کے بلڈ کولسٹرول، بلند فشارِ خون اور بلڈ شوگر کے ٹیسٹ ہوئے بھی ہیں یا نہیں۔مینڈز کا کہنا ہے کہ ایسے ممالک میں صحت کا نظام یا تو کمزور ہے یا پھروہاں پر صحت کی سہولیات تک رسائی ایک مہنگا سودا ہے، اور سارے ملکوں میں ہیلتھ کیئر تک رسائی قابلِ برداشت معاملہ ہوا بھی نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اُن ممالک میں بھی جہاں لوگوں کی اوسط کمائی نسبتاً زیادہ ہے، وہاں پر بھی ضروری طبی سہولیات تک رسائی آسان کام نہیں، جیسا کہ اِن ٹیسٹ تک رسائی کا معاملہ ظاہر کرتا ہے۔

دنیا بھر کے معالجوں کا کہنا ہے کہ ہائی کولسٹرول کی شکایت عمومی طور پر دل کی بیماریوں کا موجب بنتی ہے ، جس کے باعث سب سے زیادہ لوگ فوت ہوتے ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اس مرض سے ہر سال ایک کروڑ ستر لاکھ جانیں ضائع ہوتی ہیں، جو عالمی سطح پر ایک تہائی ہلاکتوں کے برابر ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ اِن اموات میں سے 80فی صد ترقی پذیر ممالک میں واقع ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر مینڈز نے بتایا ہے کہ زندگی بسر کرنے کے طریقوں میں معمولی تبدیلیاں لاکر، جیسا کہ تمباکو نوشی سے پرہیز، روزانہ کی جسمانی ورزش اور صحتمند خوراک کی مدد سے عارضہٴ قلب کے حملے اور بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر خطرے کی نوعیت بہت زیادہ ہو تو لوئر بلڈ کولسٹرول اور بلڈ پریشر کے لیے دوائیوں کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے ۔ تاہم، اُنھوں نے اِس بات کی نشاندہی کی کہ بہت سے بیماروں کی بروقت تشخیص ہی نہیں ہو پاتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ کولسٹرول کا بر وقت پتا لگانا، زیادہ بہتر بات ہوگی۔
مطالعاتی جائزے سےمعلوم ہوتا ہے کہ کولسٹرول کی سطح کم کرنے کی ادویات عام دستیاب ہیں، جو بہت ہی مؤثر بھی ہیں اور دنیا بھر میں عارضہٴ قلب کی بیماری کو گھٹانے میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ دوائیاں نسبتاً سستی ہیں۔

تاہم، ڈاکٹر مینڈز نے اِس بات کی نشاندہی کی کہ ایک دوائی جو کسی امیر ملک میں تین ڈالر میں مل رہی ہے، وہ دنیا کے غریب ممالک کے کروڑوں افراد کی قوتِ خرید سے باہر ہے، جو دن بھر میں بمشکل دو ڈالر سے بھی کم کما پاتے ہیں۔