گزشتہ ہفتے آٹھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اب پبلک سیکورٹی کے نائب وزیرمینگ ہونگوی نے سرکاری ’سی سی ٹی وی‘ کو بتایا ہے کہ مزید لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
بیجنگ —
سیکورٹی کے ایک اعلیٰ چینی عہدے دار نے کہا ہے کہ مغربی چین میں سنکیانگ کے علاقے میں ہونے والی پر تشدد جھڑپ کے سلسلے میں مزید ملزم گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
اس واقعے میں 21 افراد ہلاک ہو ئے تھے۔ پیر کے روز ہلاک ہونے والوں کے نام جاری کر دیے گئے لیکن مبینہ حملہ آوروں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہوئی ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ جھڑپ دہشت گردی کے ایک بڑے حملے کا حصہ تھی۔
گزشتہ ہفتے آٹھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اب پبلک سیکورٹی کے نائب وزیرمینگ ہونگوی نے سرکاری ’سی سی ٹی وی‘ کو بتایا ہے کہ مزید لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
تا ہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ حکام نے کُل کتنے لوگوں کو پکڑ رکھا ہے ۔
مینگ کہہ رہے ہیں کہ اس کیس کی تفتیش میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور بیشتر تفصیلات واضح ہو چکی ہیں۔ دہشت گردوں کے ایک گروپ کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور خود ساختہ دھماکہ خیز چیزیں، ہتھیار اور مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کے پرچم بر آمد کر لیے گئے ہیں ۔
سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں سے اس علاقے کے ایغور باشندوں میں بے اطمینانی پھیل گئی ہے اور بعض لوگ مشرقی ترکستان کی آزاد ریاست قائم کرنے کی کوششو ںکے حامی ہیں۔
ایغور ترک نسل کے مسلمان ہیں جن کی بیشتر تعداد سنکیانگ کے علاقے میں آباد ہے۔
گزشتہ ہفتے کی پُر تشدد جھڑپ حالیہ برسوں کا بد ترین واقعہ تھا لیکن دوسرے واقعات کے برعکس مرنے والے بیشتر لوگوں کو تعلق ایغور نسلی اقلیت سے تھا یعنی مبینہ حملہ آور اور موقع واردات پر موجود حکام دونوں ایغور تھے۔
سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ یہ واقعے ایک گھر میں داخلے کے دوران ہوا۔ تا ہم بیرونی ملکوں کے ایغور گروپوں نے کہا کہ یہ واقعہ پولیس کی طرف سے گھروں کی غیر قانونی تلاشی کے دوران پیش آیا۔
بیجنگ کی سنٹرل یونیورسٹی آف نیشنیلٹیز کے ایک ایغور دانشور الہام ٹوہٹی کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کے نزدیک ہر قسم کا تشدد قابلِ مذمت ہے، لیکن حکومت کی طرف سے اس واقعے کی جو تفصیل جاری کی گئی ہے۔
ٹوہٹی کہتے ہیں کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ سرکاری عہدے دار اس گھر میں ہی کیوں گئے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی گھرانے کے سب لوگ دہشت گرد ہوں اور وہ سب اپنے گھر میں موجود ہوں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوا حکام اس گھر میں گئے اور پھر کوئی جھگڑا شروع ہو گیا۔
بیری سیٹیم ہانگ کانگ کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں اور ان کا مضمون چین کی نسلی پالیسیاں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ وہاں ہوا کیا تھا لیکن اس بات کا امکان ہے کہ تیسرا متبادل راستہ نکالا جا سکتا تھا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ایسے بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن میں بہت سے لوگ جن پر انتہا پسندی کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے اور یہ لوگ کوئی پر تشدد کارروائی کر بیٹھتے ہیں، کسی نظریے کی بنا پر نہیں، بلکہ کسی مقامی تنازعے کی وجہ سے۔ مقامی حکام کے ساتھ کسی سطح پر ان کا کوئی تنازعہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ مقامی حکام نے کوئی ایسا اقدام کیا جسے اس گھرانے کے لوگوں نے کسی طرح اشتعال انگیزی خیال کیا، اور اس کے نتیجے میں تشدد ہوا۔‘‘
چھہ مبینہ حملہ آوروں کے علاوہ چار ایغور خواتین کارکن اور کئی ایغور پولیس والے اور کمیونٹی ورکرز اس واقعے میں ہلاک ہو گئے۔
مقامی چینی کمیونسٹ پارٹی کے دو عہدے دار جن میں ایک کمیونسٹ پارٹی کے مقامی پراپیگنڈہ چیف تھے اور برانچ پارٹی سکریٹری لیو ژالینگ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔
لیو کی بڑی بہن لیو سیلنگ نے ہانگ کانگ میں قائم فونکس ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ان کے بھائی اور دوسرے لوگوں نے جو اس گھر پر گئے تھے ایک بڑے پُر تشدد واقعے کو روک دیا جو اگلے دن یعنی 24 اپریل کو ہونے والا تھا۔
سرکاری ٹیلیویژن نے سنکیانگ کے اس گھر کی تصویریں دکھائیں جہاں یہ جھڑپ ہوئی تھی۔ گھر پوری طرح تباہ ہو چکا تھا اور دیواروں اور ملبے کے سوا وہاں کچھ باقی نہیں بچا تھا۔
اس واقعے میں 21 افراد ہلاک ہو ئے تھے۔ پیر کے روز ہلاک ہونے والوں کے نام جاری کر دیے گئے لیکن مبینہ حملہ آوروں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہوئی ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ جھڑپ دہشت گردی کے ایک بڑے حملے کا حصہ تھی۔
گزشتہ ہفتے آٹھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اب پبلک سیکورٹی کے نائب وزیرمینگ ہونگوی نے سرکاری ’سی سی ٹی وی‘ کو بتایا ہے کہ مزید لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
تا ہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ حکام نے کُل کتنے لوگوں کو پکڑ رکھا ہے ۔
مینگ کہہ رہے ہیں کہ اس کیس کی تفتیش میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور بیشتر تفصیلات واضح ہو چکی ہیں۔ دہشت گردوں کے ایک گروپ کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور خود ساختہ دھماکہ خیز چیزیں، ہتھیار اور مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کے پرچم بر آمد کر لیے گئے ہیں ۔
سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں سے اس علاقے کے ایغور باشندوں میں بے اطمینانی پھیل گئی ہے اور بعض لوگ مشرقی ترکستان کی آزاد ریاست قائم کرنے کی کوششو ںکے حامی ہیں۔
ایغور ترک نسل کے مسلمان ہیں جن کی بیشتر تعداد سنکیانگ کے علاقے میں آباد ہے۔
گزشتہ ہفتے کی پُر تشدد جھڑپ حالیہ برسوں کا بد ترین واقعہ تھا لیکن دوسرے واقعات کے برعکس مرنے والے بیشتر لوگوں کو تعلق ایغور نسلی اقلیت سے تھا یعنی مبینہ حملہ آور اور موقع واردات پر موجود حکام دونوں ایغور تھے۔
سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ یہ واقعے ایک گھر میں داخلے کے دوران ہوا۔ تا ہم بیرونی ملکوں کے ایغور گروپوں نے کہا کہ یہ واقعہ پولیس کی طرف سے گھروں کی غیر قانونی تلاشی کے دوران پیش آیا۔
بیجنگ کی سنٹرل یونیورسٹی آف نیشنیلٹیز کے ایک ایغور دانشور الہام ٹوہٹی کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کے نزدیک ہر قسم کا تشدد قابلِ مذمت ہے، لیکن حکومت کی طرف سے اس واقعے کی جو تفصیل جاری کی گئی ہے۔
ٹوہٹی کہتے ہیں کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ سرکاری عہدے دار اس گھر میں ہی کیوں گئے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی گھرانے کے سب لوگ دہشت گرد ہوں اور وہ سب اپنے گھر میں موجود ہوں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوا حکام اس گھر میں گئے اور پھر کوئی جھگڑا شروع ہو گیا۔
بیری سیٹیم ہانگ کانگ کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں اور ان کا مضمون چین کی نسلی پالیسیاں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ وہاں ہوا کیا تھا لیکن اس بات کا امکان ہے کہ تیسرا متبادل راستہ نکالا جا سکتا تھا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ایسے بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن میں بہت سے لوگ جن پر انتہا پسندی کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے اور یہ لوگ کوئی پر تشدد کارروائی کر بیٹھتے ہیں، کسی نظریے کی بنا پر نہیں، بلکہ کسی مقامی تنازعے کی وجہ سے۔ مقامی حکام کے ساتھ کسی سطح پر ان کا کوئی تنازعہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ مقامی حکام نے کوئی ایسا اقدام کیا جسے اس گھرانے کے لوگوں نے کسی طرح اشتعال انگیزی خیال کیا، اور اس کے نتیجے میں تشدد ہوا۔‘‘
چھہ مبینہ حملہ آوروں کے علاوہ چار ایغور خواتین کارکن اور کئی ایغور پولیس والے اور کمیونٹی ورکرز اس واقعے میں ہلاک ہو گئے۔
مقامی چینی کمیونسٹ پارٹی کے دو عہدے دار جن میں ایک کمیونسٹ پارٹی کے مقامی پراپیگنڈہ چیف تھے اور برانچ پارٹی سکریٹری لیو ژالینگ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔
لیو کی بڑی بہن لیو سیلنگ نے ہانگ کانگ میں قائم فونکس ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ان کے بھائی اور دوسرے لوگوں نے جو اس گھر پر گئے تھے ایک بڑے پُر تشدد واقعے کو روک دیا جو اگلے دن یعنی 24 اپریل کو ہونے والا تھا۔
سرکاری ٹیلیویژن نے سنکیانگ کے اس گھر کی تصویریں دکھائیں جہاں یہ جھڑپ ہوئی تھی۔ گھر پوری طرح تباہ ہو چکا تھا اور دیواروں اور ملبے کے سوا وہاں کچھ باقی نہیں بچا تھا۔