چین کے صدر ہو جن تاؤ 18 جنوری سے امریکہ کے اپنے سرکاری دورے کا آغاز کر رہے ہیں۔ ان کے اس دورے کا فوکس امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی شراکت داری پر ہو گا۔سرمایہ دار یہ توقع کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑے گا۔
دنیا کے دو بڑے ممالک کے سربراہان کے درمیان واشنگٹن میں ملاقات ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں کو یہ اندازہ بھی ہے کہ کامیابی کے لیے ایک کو دوسرے کی ضرورت ہے۔ واشنگٹن کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے نِٹزی سکول آف ایڈوانس انٹرنیشنل سٹڈیز میں امریکی وزیرِ خزانہ ٹموتھی گائتھنر نے دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چین کو امریکہ کی ضرورت ہے مگر امریکہ کو بھی چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی تعلق سے فائدہ ہو گا۔
امریکی محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ امریکہ اس سال چین کو ایک سو ارب ڈالر کی مصنوعات اور سروسز دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ اضافہ باقی دنیا کی برآمدات سے دوگنا ہے۔ ٹموتھی گائتھنر نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے کے لیے چین کی کوششوں کو سراہا مگریہ بھی کہا کہ چین کو برابر کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ہے کہ ایسی تبدیلیوں کی حمایت کی جائے جن سے برآمدات کے ذریعے ہونے والی ترقی پر چین کا انحصار کم ہو ۔ اور ملکی سطح پر کھپت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے ساتھ چین کے کرنسی ایکس چینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق ہونا چاہیے۔
دونوں ملکوں کے درمیان ناچاقی کی وجہ ہے چین کی کمزور کرنسی ۔ گزشتہ سال جون میں بیجنگ نے ایکس چینج ریٹ کو بڑھانے کا وعدہ کیا۔ مگر اس وقت سے چینی یوان کی قدر میں صرف تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ چین اپنی کرنسی کی قدرجان بوجھ کر کم رکھتا ہے تاکہ اس کی برآمدات سستی ہوں۔ مگر امریکی چیمبر آف کامرس کے صدر ٹامس ڈو نو کا کہتے ہیں کہ امریکہ کا مقصد چینی منڈیوں تک مزید رسائی ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم چینی صدر کو ایک مثبت انداز میں اپنا پیغام دیں گے۔ ہم اس بات پر زور دیں گے کہ امریکی برآمدات کو مناسب موقع دیا جائے۔ جس سے یہاں روزگار پیدا ہوگا اور مجھے امید ہے کہ صدر ہو جن تاؤ کا دورہ بہت مثبت ہو گا۔
چینی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ یوان کی قدر بڑھائیں گے۔کیونکہ ان کے مطابق ایک دم قدر بڑھنے کی صورت میں فیکٹریاں بند اور روزگار کم ہو سکتے ہیں۔ دونوں صدور کی ملاقات میں چینی کرنسی زیر بحث آنے والے مسائل میں سے ایک ہو گی مگر تجزیہ کاروں کے مطابق ایک اور اہم مسئلہ ہو گا چین کا جنگجو اتحادی شمالی کوریا۔
عالمی بینک کے معیشت دان جسٹن یی فو لین کہتے ہیں کہ اختلافات تو ہیں اور اگر آپ امریکہ اور چین کے تعلقات کو دیکھیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ ہو گا۔ مگر آپ مجموعی طور پر دیکھیں تو بہتری آ رہی ہے۔اور صدر ہو جن تاؤ کا یہ دورہ چین اور امریکہ کے بہتر ہوتے تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے۔
صدر ہو جن تاؤبدھ یعنی 19 جنوری کو صدر اوباما سے ملاقات کریں گے۔ صدر اوباما کے آفس میں آنے کے بعد امریکہ کے لیے یہ کسی غیر ملکی سربراہ کا تیسراسرکاری دورہ ہو گا۔