داسو ڈیم ہائیڈرو پراجیکٹ پر کام کرنے والے چین کے انجنئیرز کی بس کو پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کے لیے چین کے حکام پاکستان پہنچے ہیں جنہوں نے جائے وقوع کا دورہ کیا۔ دوسری جانب واقعے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو چین جانے کی ہدایت کی ہے۔
واقعے کے بعد داسو ڈیم کی تعمیر پر کام کرنے والی چین کی کمپنی نے منصوبے پر کام روک دیا ہے۔ ساتھ ہی چینی کمپنی نے پاکستان کے ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سانحے کے بعد وزرا کے متضاد بیانات اور حقائق چھپانے کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان اور چین کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے خطرناک ہے۔ چین نے پاکستان کے حکام پر عدم اعتماد کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے اپنی ٹیم بھیجی ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 14 جولائی کو قراقرم ہائی وے پر حادثہ پیش آیا جس میں 13 افراد ہلاک ہوئے۔ حادثے میں 9 چینی بھی نشانہ بنے۔ اس حوالے سے وزیرِ اعظم نے چینی ہم منصب سے بھی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے اپنے باشندوں کی سیکیورٹی سخت کرنے کی استدعا کی ہے۔ جس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے وزارتِ خارجہ کو چین کے شہریوں کی سیکیورٹی مزید سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بدقسمت بس حادثے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوسبس حادثے میں اب تک ہونے والی تحقیق سے متعلق پیش رفت پر تبادلہ خیالداسو بس حادثے کے تحقیقات جلد از جلد مکمل کرنے پر اتفاقکوئی بھی شرپسند طاقت پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب نہیں کر سکتی۔دونوں وزراء کا عزم2/4
— Sheikh Rashid Ahmed (@ShkhRasheed) July 17, 2021
شیخ رشید احمد نے بتایا کہ عمران خان نے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو چین جانے کی ہدایت کی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ چین کی حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ ذمہ دار افراد کو کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان میں کام کرنے والے تمام چینی ورکرز کو فُول پروف سکیورٹی دینگے۔چینی ہم منصب کو یقین دہانیچینی صدر شی جن پنگ کی ہدایت پر آپ سے بس حادثے پر کال کررہا ہوں۔ چینی وزیر زاؤ کیذہیبس حادثے میں دونوں ملکوں کے شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر بہت افسوس ہے۔ چینی وزیر4/4
— Sheikh Rashid Ahmed (@ShkhRasheed) July 17, 2021
وزرا کے متضاد بیانات
کوہستان میں دھماکے میں 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں نو چین کے انجینئرز تھے۔ اس وقعے کے بعد پاکستان کے حکام کے متضاد بیانات سامنے آئے۔ جس وقت یہ سانحہ پیش آیا اس وقت مقامی میڈیا کی طرف سے اس واقعے کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا گیا تھا۔ البتہ کچھ ہی دیر بعد حکام اسے حادثہ قرار دینے لگے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان کی طرف سے شام گئے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں اسے گیس لیکج کے باعث ہونے والا حادثہ قرار دیا گیا تھا۔
بعد ازاں تاشقند میں موجود پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے وہاں موجود چین کے حکام سے ملاقات میں بھی یہی مؤقف اپنایا اور اسے ایک حادثہ قرار دیا۔
چینی حکام پہلے روز سے ہی اس مؤقف پر مطمئن نہیں تھے اور انہوں نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
واقعہ کے 24 گھنٹے گزرنے کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں واقعے میں دھماکہ خیز مواد استعمال ہونے کے شواہد ملنے کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں دہشت گردی خارج از امکان نہیں ہے۔
Initial investigations into Dassu incident have now confirmed traces of explosives,Terrorism cannot be ruled out,PM is personally supervising all developments,in this regard Govt is in close coordination with Chinese embassy we are committed to fight menace of terrorism together
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) July 15, 2021
بعد ازاں چین کی وزارتِ خارجہ کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ دہشت گردی ہے تو اس کے ذمہ داران کو فوری طور پر گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
اس کے بعد وزارتِ اطلاعات اور وزارتِ خارجہ کی طرف کوئی بیان سامنے نہیں۔ ہفتے کو وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے اس واقعے کو کوئٹہ کے سرینہ ہوٹل کے واقعہ سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وہی لوگ ملوث ہیں جو کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں کارروائی میں شامل تھے۔
اپریل میں سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہونے والے دھماکے میں پانچ افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوئے تھے جس وقت یہ دھماکہ ہوا رپورٹس کے مطابق اس وقت چینی سفیر سمیت اہم حکام کوئٹہ میں ہی موجود تھے۔
اس بارے میں تجزیہ کار اور قائد اعظم یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ظفر جسپال نے کہا کہ اس سانحے کے بعد جس طرح بیانات دیے گئے اس سے صورتِ حال میں کنفیوژن پیدا ہوئی۔ ان کے بقول اگر تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ایک وزارت کی طرف سے ایک بیان سامنے آتا تو صورتِ حال بہتر ہوتی۔
پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا دوست ہے اور ایک عرصہ سے یہاں کام کر رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ سی پیک منصوبے اور بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام پر دنیا کے مختلف حصوں سے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔ اسے ہدف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور ماضی میں بھی مختلف دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے چین کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
ماضی میں ہونے والے حملوں کے بعد فوری طور پر پاکستان کی طرف سے تمام تفصیلات جاری کر دی جاتی تھیں۔ البتہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ واقعے کے تین روز بعد بھی پاکستان میں حکام اب تک اس کی نوعیت کے حوالے سے آگاہ نہیں کر رہے۔
It is sad to learn that the management of #Dasu HPP have suspended work on the Dasu construction site due to the explosion causing heavy losses to the Chinese workers.This is a huge loss to Pakistan and the govt must immediately take remedial measures to control the situation pic.twitter.com/hfgi1dk6Jx
— Aftab Khan Sherpao (@AftabSherpao) July 17, 2021
اس واقعے کے بعد داسو ڈیم پر کام کرنے والی چین کی کمپنی نے پاکستان کے ملازمین کو چھٹی دے دی ہے اور منصوبے پر کام روک دیا ہے۔ ملازمین کو کہا گیا ہے کہ منصوبہ پر جب دوبارہ کام کا آغاز ہو گا تو انہیں بلا لیا جائے گا۔
اس واقعے کے بعد جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس بارے میں سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین عاصم سلیم باجوہ نے آگاہ کیا کہ اجلاس عید کے بعد تک ملتوی کیا گیا ہے۔
اس بارے میں اطلاعات ہیں چینی حکام نے واقعے کے بعد پاکستان کے حکام کی طرف سے اس سانحہ کو درست طور پر ڈیل نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے۔