چینی سفارت کار کا سنکیانگ میں روزہ رکھنے پر جزوی پابندی کا اقرار

فائل

ریخار حسین

ایک چینی افسر نے ان تمام الزامات سے انکار کیا ہے کہ چین کی حکومت رمضان کے مہینے کے دوران سنکیانگ میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے روک رہی ہے۔

پاکستان میں چینی سفارت خانے میں ڈپٹی چیف آفیسر لیجئین زہاؤ کا کہنا تھا کہ چین نے سنکیانگ کی ایغور کمیونٹی پر رمضان کے دوران مذہبی رسومات پر جزوی پابندی عائد کی ہے روزہ رکھنے پر مکمل پابندی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘‘وہاں کوئی مکمل پابندی نہیں ہے یہ مغربی پروپیگنڈہ ہے۔’’

لیجئین کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کے شہری روزہ رکھنے کے لئے آزاد ہیں اور یہ پابندیاں صرف ان پر ہیں جنہیں سرکاری ذمہ داریاں سرانجام دینی ہوتی ہیں، تاکہ ایسے اہلکاروں کی ذاتی مذہبی رسومات عوامی خدمت کی راہ میں حائل نہ ہو سکیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں ‘‘کمیونسٹ پارٹی کے ممبران پر ہیں جو کہ ملحد ہوتے ہیں یا سرکاری افسران، جنہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوتی ہیں اور ایسے طلبا پر ہیں جنہیں لازمی تعلیم اور سخت مشکل کام کرنے ہوتے ہیں۔’’

چینی حکام کی جانب سے یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنان اور ایغور مسلمانوں کی حمایت میں کام کرنے والے گروپ ہزاروں ایغور مسلمانوں پر رمضان کے شروع ہونے کے بعد چینی حکومت کی جانب سے پابندیاں لگائے جانے پر اپنی پریشانی ظاہر کر چکے ہیں۔

جرمنی میں قائم ورلڈ ایغور کانگریس کے سربراہ ڈالکن عیسیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جو ایغور پبلک سیکٹر میں کام کرتے ہیں اور جو طلبا ہیں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ روزانہ کینٹین میں آئیں ورنہ ان پر خفیہ طور پر روزہ رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور یہ کہ ان میں انتہاپسندی کے اثرات ہیں۔

لیجئین زہاؤ کے بیان سے اختلاف کرتے ہوئے ڈالکن عیسیٰ نے دعویٰ کیا کہ مسلمان سرکاری اہلکاروں کو گھر لے جانے کے لئے بھی کھانا دیا جاتا ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے افراد کے ساتھ اسے کھائیں۔ اس کے علاوہ مقامی افراد کے لئے مسلمانوں کی دوسری رسومات جیسے مساجد میں نماز باجماعت پڑھنا اور سر پر سکارف لینے پر پابندی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘‘کچھ کیسز میں ایغور اہلکاروں کو سور کا گوشت دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ اپنے خاندان کے ساتھ اسے کھائیں۔ 2016 کے بعد سے رمضان میں ایسی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں جو اس برس زیادہ سخت ہیں۔’’

چین کی حکومت پر حالیہ برسوں میں دس لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلمان قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراستی مراکز میں قید کرنے پر عالمی طور پر تنقید کا سامنا ہے۔