وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) خالد منصور نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ بڑھنے پر بیجنگ پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو کچھ چینی کمپنیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے پیداواری پلانٹس پاکستان میں منتقل کر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان چینی کمپنیوں نے پاکستانی حکام کو کہا ہے کہ ایسے ووکیشنل اور ٹریننگ انسٹیٹیوٹ قائم کیے جائیں جہاں سے آئندہ برس کئی لاکھ پاکستانی طلبہ تیار ہو کر نکلیں اور وہ ان چینی صنعتوں میں کام کرنے کے قابل ہوں۔
بعض مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا پاکستان چین اور امریکہ کی اس مسابقت سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لیے تیار ہے بھی یا نہیں۔
پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین ہارون شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان فی الحال اس کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نظر نہیں آتا کیوں کہ اس کے لیے جو توازن درکار ہے یا ترجیحات تبدیل کرنی ہیں اب تک اس حوالے سے اقدامات نظر نہیں آتے۔ ان کے خیال میں ابھی اس کے لیے بہت سی تیاریوں کی ضرورت ہے۔
چین سے کونسی صنعتیں پاکستان منتقل ہو سکتی ہیں؟
ہارون شریف کے مطابق چین پہلے ہی اپنی صنعتوں کو دیگر ممالک منتقل کر رہا ہے۔ وہ ان صنعتوں کو دیگر ممالک میں منتقل کر رہا ہے جہاں مزدور کا معاوضہ چین سے کم ہے یا اس ملک میں پیداوار کے لیے مسابقت نہیں رہی، یا پھر تجارتی پابندیاں لگ رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین نے اپنی کچھ صنعتیں کمبوڈیا اور دیگر مشرقی ایشیائی ممالک میں منتقل کی ہیں اور اسی طرح وہ پاکستان کو بھی اس نظریے سے دیکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر چین کی انڈسٹریز کو یہاں ری لوکیٹ کیا جائے تو دیکھنا یہ ہو گا کہ ہمیں کس طرح کی صنعتوں کو منتقل کرنا سود مند ثابت ہوگا۔ مثال کے طور پر ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے والی انڈسٹریز پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ البتہ جتنی ایمرجنگ ٹیکنالوجی سے متعلقہ صنعتیں جیسا کہ موبائل فونز، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس، کپڑے سے تیار ہونے والی ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس اور پلاسٹک سے تیار ہونے والی اشیا کی صنعتیں منتقل ہونا پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے متعلقہ اشیا پاکستان میں گوجرانوالہ ، گجرات، وزیر آباد، سیالکوٹ اور دیگر علاقوں میں پہلے ہی سے تیار ہو رہی ہیں۔
معاشی سفارت کاری اور انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت
پاکستان کی پالیسی کے حوالے سے ہارون شریف کا کہنا تھا کہ کئی برس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی توجہ کا مرکز یک قطبی دنیا رہی ہے اور ایسے میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی معاشی سے زیادہ سیکیورٹی اور جیوپولیٹیکل نوعیت کی رہی ہیں۔ البتہ معاشی تعلقات برآمدات سے زیادہ نہیں رہے اور نہ ہی امریکہ اور پاکستان میں کوئی بھاری سرمایہ کاری کی شراکت داری دیکھنے میں آئی ہے۔ جب کہ چین اپنے تعلقات معاشی پس منظر کے تحت بناتا ہے۔ اور پاکستان کے دفتر خارجہ میں ابھی ایسے افسران کی کمی ہے جو معاشی تعلقات، تجارتی منصوبے بنانے اوران پر عمل درآمد کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ان میں یہ عنصر باقی ممالک کی نسبت کم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ پالیسی بنانے میں معاشی پہلوؤں کو ہمیشہ ہی پسِ پشت رکھا گیا ہے۔ پہلی بار قومی سیکیورٹی پالیسی میں معاشی پہلوؤں کو وہ اہمیت دی گئی ہے جس کی واقعی ضرورت تھی۔
ہارون شریف نے بتایا کہ پاکستان کے پالیسی سازوں نے بالآخر محسوس کر لیا ہے کہ اگر خطے میں آگے بڑھنا ہے تو معاشی طور پر مستحکم ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں۔ البتہ اس کے لیے ملک کے انتظامی ڈھانچے یعنی بیورو کریسی کی ایسی کوئی تربیت ہی نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بطور چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ ان کا اپنا تجربہ رہا ہے کہ جب بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان لایا جاتا تھا تو ملکی وزارتوں کے پاس منصوبے بنانے، انہیں چلانے کے لیے لوگ نہیں ہوتے تھے لیکن اس کے برعکس پرائیویٹ سیکٹر اس میں بہت آگے ہے۔
ہارون شریف نے بتایا کہ چین کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر پاکستان سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہتا ہے تو ہمیں وہ مواقع بنا کر دیں۔ اکنامک زونز بنائے جائیں۔ فنانسنگ کا انتظام کریں۔ ہنر مند افرادی قوت فراہم کی جائیں البتہ یہ سب کرنے کے لیے حکومت کے ڈھانچے کو بہت زیادہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں یقینی طور پر وقت لگے گا۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اس مقصد کے لیے ری لوکیشن پالیسی پر بھی کام کر رہا ہے اور پالیسی کی تیاری پر چین سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ پاکستان کا خیال ہے کہ وہ چین سے ایسی صنعتوں کی منتقلی پر زور دے گا جس سے اس کی زرعی پیداوار بڑھانے، برآمدات میں اضافے اور وہ صنعتیں جو چین میں اب معاشی طور پر کم قابل عمل رہ گئی ہیں انہیں یہاں منتقل کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان ہر سال تقریباََ 26 ہزار آئی ٹی انجینئرز مارکیٹ میں لا رہا ہے جب کہ ان کی تنخواہ چین سے تین گنا کم ہے۔ چین کی بڑی کمپنیاں جیسے ہواوے، علی بابا اور دیگر کے سروس سینٹرز کے بیک اینڈ آپریشنز پاکستان منتقل ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے قانونی پیچیدگیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کو پاکستان میں راغب کرنے کے لیے قانونی اور عدالتی پیچیدگیاں بھی حائل ہوتی ہیں۔ ماضی میں پاکستان کی عدالتوں نے ایسے معاہدے بھی کالعدم قرار دیے جو بین الاقوامی قوانین کے طور پر تسلیم شدہ تھے اور عالمی سرمایہ کار کسی ایسے ملک میں آنے سے گریز کرتے ہیں جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ معاہدوں کی پاسداری نہ کریں۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے نائب صدر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری خاص طور پر بیرونی سرمایہ کار کو راغب کرنا تو بہتر اقدام ہے مگر چین بڑی حد تک اپنی صنعتوں کو پہلے ہی باہر منتقل کر رہا ہے۔
چین سے صنعتوں کی منتقلی پر ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان منتقلی میں سب سے بڑی رکاوٹ انفراسٹرکچر نہ ہونا ہے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اگرچہ 35 ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے البتہ اس وقت یہاں خطے کی مہنگی ترین بجلی فراہم کی جا رہی ہے جس سے تیار اشیا کی مسابقت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں اب بھی بجلی کے ترسیل کا نظام بہت کمزور ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتوں کو جس خام مال کی ضرروت ہے وہ زیادہ تر درآمد کیا جاتا ہے۔ جب کہ حکومتی سبسڈیز نے صنعتوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بجائے انہیں مؤثر بننے ہی نہ دیا۔ اسی طرح اب انڈسٹری بہت زیادہ مشینی ہو چکی ہے ایسے میں افرادی قوت بھی وہ درکار ہے جو تھوڑی بہت تکنیکی تربیت رکھتی ہو یعنی چین سے منتقل ہونے والی صنعتوں کو ہنر مند افراد کی ضرورت ہو گی۔ ایسے میں چینی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ کیوں کہ ابھی اس ضمن میں بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
ملک میں چار اکنامک زون رواں سال کے آخر تک مکمل ہونے کی توقع
ادھر وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور کا کہنا ہے کہ چین کے مقابلے میں پاکستان سے یورپ اور بیرونی دنیا میں سامان بھیجنے میں وقت کم صرف ہو گا بلکہ چین کے مقابلے میں پاکستان کی لیبر کاسٹ دو گنا کم آتی ہے جب کہ ملک میں بہت بڑی لیبر کلاس موجود ہے۔
اسی طرح ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بجلی کا ٹیرف بھی چین کے مقابلے میں کم ہے۔ پاکستان کی کُل برآمدات میں ٹیکسٹائل کا حصہ 60 فی صد کے لگ بھگ ہے لیکن دنیا بھر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں پاکستان کا شئیر 4 فی صد سے بھی کم ہے۔ اگر چین سے ٹیکسٹائل کی ویلیو ایڈڈ صنعتیں پاکستان کا رخ کریں تو اس سے ملک کو بے حد فائدہ ہو سکتا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کی توجہ ملک کے چاروں صوبوں میں سے چار اکنامک زون بنانے اور اس میں صنعتوں کی ضروریات کو پوری کرنے پر ہے۔ ان میں سے ایک رشکئی، دوسرا فیصل آباد، تیسرا بوستان اور چوتھا دھابیجی کے مقام پر بنایا جا رہا ہے اور چینی سرمایہ کار دھابیجی کے اکنامک زون میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں کیوں کہ یہ بندرگاہ سے صرف 11 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
حکومت کے مطابق ان اکنامک زونز میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس، انجینئرنگ، اسٹیل، آٹو پارٹس، فروٹ پراسسنگ، زرعی مشینری، فارماسیوٹیکل، کرومائیٹ، کولڈ اسٹوریج، بجلی سے چلنے والے آلات اور حلال فوڈ کی انڈسٹری لگائی جائے گی۔ جب کہ گوادر کو فری اکنامک زون بنایا جائے گا جہاں 23 سال کے لیے ٹیکس چھوٹ جیسی مراعات بھی سرمایہ کاروں کو دی جا رہی ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اسپیشل اکنامک زونز اور گوادر کے فری پورٹ میں دی گئی مراعات بھارت، بنگلہ دیش، چین، ویت نام اور کمبوڈیا سے کہیں بہتر یا کم از کم برابر ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان آنے والے کسی بھی چینی سرمایہ کار کو مجموعی طور پر 37 اپروولز اور اجازت نامے درکار ہوتے ہیں۔ البتہ اب اسپیشل اکنامک زون ایکٹ میں ترمیم کی جا رہی ہے جس سے یہ اجازت نامے حاصل کرنے کا عمل بھی آسان ہو جائے گا۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان آئندہ ماہ چین کےدورے پر جا رہے ہیں جہاں انہیں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت ایک ایسے موقع پر دی گئی جب مغربی دنیا کی جانب سے چین میں ہونے والے ان اولمپکس کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
بعض سابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں پاکستان کی بھرپور کوشش ہو گی کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنے کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرے اور سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے۔