امریکی اور چینی رہنماؤں کی ملاقات، فضائی حدود کا تذکرہ نہیں کیا

چین کے صدر نے کہا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات عمومی طور پر مثبت رہے ہیں مگر ’’علاقائی معاملات‘‘ کا سامنا بھی رہا۔
امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر ژی جنپنگ نے بدھ کو بیجنگ میں ملاقات کی، مگر دونوں رہنماؤں میں سے کسی نے بھی چین کے اعلان کردہ اس نئے ایئر ڈیفنس زون کا تذکرہ نہیں کیا جو خطے میں تناؤ کی وجہ بنا ہوا ہے۔

بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں ابتدائی ملاقات کے بعد مسٹر بائیڈن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد اعتماد ہونا چاہیئے۔

اُنھوں نے چین کی نئی فضائی حدود کا ذکر نہیں کیا، اگرچہ کہ یہ معاملہ منگل کو جاپان میں ہوئے مذاکرات کا بنیادی نقطہ رہا تھا۔

چینی صدر نے بھی اس تنازع کا براہ راست تذکرہ نہیں کیا، لیکن اُن کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات عمومی طور پر مثبت رہے مگر ’’علاقائی معاملات‘‘ کا سامنا بھی رہا۔

قبل ازیں مسٹر بائیڈن نے کہا تھا کہ چینی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں وہ فضائی حدود کا معاملہ ضرور اٹھائیں گے۔

امریکی نائب صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے تعلقات استوار کرنے کے لیے جاری کوششوں میں واشنگٹن اور بیجنگ کو اپنی شراکت داری میں اضافہ کرتے ہوئے کچھ نتائج حاصل کرنے چاہیئں۔

انھوں نے یہ بیان بیجنگ میں بدھ کو اپنے چینی ہم منصب لی یووانچاؤ سے بند کمرے میں ہونے والے مذکرات سے پہلے دیا۔

مسٹر بائیڈن بیجنگ کا دورہ ایک ایسے وقت کر رہے ہیں جب چین کو متنازع ایئر ڈیفنس زون پر تنقید کا سامنا ہے۔

اس متنازع زون میں وہ جزائر بھی شامل ہیں جن کا دعویدار واشنگٹن کا اتحادی جاپان بھی ہے۔

ٹوکیو میں جاپانی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں امریکی نائب صدر نے کہا تھا کہ انھیں مشرقی بحیرہ چین میں ایئر ڈیفنس آئیڈنٹیفیکیشن زون پر ’’گہری تشویش‘‘ ہے۔

جاپانی وزیر اعظم شنزو ابے کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ وہ چینی قیادت کے ساتھ بات چیت میں وہ یہ معاملہ اٹھائیں گے۔

امریکی رہنما نے تجویز پیش کی کہ دونوں فریقوں کو ’’اعتماد سازی کے اقدام کرتے ہوئے تناؤ کو کم کرنا چاہیئے‘‘۔ ان کے بقول ان اقدامات میں ہنگامی رابطوں کا نظام بھی شامل ہے۔

ہانگ کانگ کی سٹی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جوزف چینگ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ایسے اقدامات کا دونوں ممالک خیر مقدم کر سکتے ہیں۔

’’کسی قسم کی ہاٹ لائن یقیناً ممکن ہے۔ میرے خیال میں تمام فریقین اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور مزید اقدامات پر بات چیت کا بھی انھیں خیر مقدم کرنا چاہیئے۔ مثالی طور پر چین اور آسیان کے درمیان طے پائے گئے ضابطہ کار کی طرح کا کوئی ضابطہ کار ہونا چاہیئے۔‘‘

لیکن چینگ نہیں سمجھتے کہ بائیڈن اس تنازع میں کسی قسم کے مصالحت کار کا کردار ادا کرنا چاہیئں گے کیونکہ چین جن معاملات کو باہمی علاقائی تنازعات سمجھتا ہے ان میں بیجنگ کوئی بیرونی مداخلت نہیں چاہتا۔

ٹوکیو کی جانب سے جزائر کے معاملے کو ایک تنازع تسلیم کرنے سے انکار کے بعد مستقبل میں مذاکرات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ جاپان کا ماننا ہے کہ باضابطہ طور پر اسے تنازع تسلیم کرنے پر اس کی پوزیشن کمزور ہوگی۔

سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں چین پر ماہر بونی گلاسر کہتے ہیں کہ موجودہ تناؤ کی صورتحال میں مسٹر بائیڈن خود کو ایک مشکل پوزیشن میں کھڑا پائیں گے۔

چینی روزنامہ چائنا ڈیلی اپنے اداریے میں امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسٹر بائیڈن ’’اگر چین صرف اپنی حکومت کے غلط اور یک طرفہ بیانات کو دہرانے آئے ہیں تو اُنھیں کسی پیش رفت کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے‘‘۔

چین نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں نئے ایئر ڈیفنس زون کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ تمام طیاروں کو ان فضائی حدود میں پرواز سے پہلے اپنے فلائیٹ پلان فراہم کرنا ہوں گے۔

امریکہ چین کے اس زون کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکا ہے اور دو مرتبہ اس کے بی۔52 بمبار طیارے ان حدود میں تربیتی پرواز کر چکے ہیں۔