اقوام متحدہ کے انسانی حقو ق سے متلعق ادارے نے حال ہی میں کہا ہے کہ یہ بات ناقابل قبول ہے کہ چین میں انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔
واشنگٹن —
چین نے اگرچہ غربت کے خاتمے اور عوام کی فلاح بہبود سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ’’یونیورسل پیراڈک ریو‘‘ کی رپورٹ کو تسلیم کیا ہے، تاہم چین اس عالمی ادارے کی طرف سے جاری کردہ اُن حالیہ رپورٹوں کو رد کر دیا جن میں شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمیت تبت میں چین کی پالیسی اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ حکومت کے ناروا سلوک کا ذکر شامل ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق چین میں ’’زبردست‘‘ بہتری آئی جسے اُن کے بقول اقوام متحدہ کی کونسل نے نظر انداز کر دیا اور جان بوجھ کر نکتہ چینی کی۔
’’یہ انسانی حقوق (کے معاملے) کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے مترادف ہے اور یہ دوہرا معیار ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے نے حال ہی میں چین سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے کارکن کاؤ کی موت کی تحقیقات کرے جب کہ یہ بھی واضح کیا کہ یہ بات ناقابل قبول ہے کہ چین میں انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے بعد بیشتر ملکوں نے چین میں ’’انسانی حقوق‘‘ سے متعلق واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی عوام کے آزادی اظہار اور ان کے حقوق کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب چین نے کہا کہ وہ اپنے قوانین کے مطابق بین الاقوامی معاہدے پر عمل در آمد کرے گا تاہم اس حوالے سے کسی مخصوص وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل ڈیوس کا کہنا ہے کہ چین اپنے ملک میں عدالتی اصلاحات متعارف کروانے میں بھرپور کام کر رہا ہے۔
اُنھون نے کہا کہ عالمی معیار کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آزاد معاشرہ ہونا ضروری ہے جہاں میڈیا آزاد ہو اور انٹرنیٹ کی سہولت پر کوئی پابندی نا ہو۔
’’یہ ایک مشکوک صورت حال ہے کیونکہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضع اشارے نظر نہیں آ رہے۔‘‘
مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے حقو ق کے حوالے سے چین پر جو تنقید کی جا رہی ہے اس کے جواب میں چین نے کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تمام بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق چین میں ’’زبردست‘‘ بہتری آئی جسے اُن کے بقول اقوام متحدہ کی کونسل نے نظر انداز کر دیا اور جان بوجھ کر نکتہ چینی کی۔
’’یہ انسانی حقوق (کے معاملے) کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے مترادف ہے اور یہ دوہرا معیار ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے نے حال ہی میں چین سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے کارکن کاؤ کی موت کی تحقیقات کرے جب کہ یہ بھی واضح کیا کہ یہ بات ناقابل قبول ہے کہ چین میں انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے بعد بیشتر ملکوں نے چین میں ’’انسانی حقوق‘‘ سے متعلق واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی عوام کے آزادی اظہار اور ان کے حقوق کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب چین نے کہا کہ وہ اپنے قوانین کے مطابق بین الاقوامی معاہدے پر عمل در آمد کرے گا تاہم اس حوالے سے کسی مخصوص وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل ڈیوس کا کہنا ہے کہ چین اپنے ملک میں عدالتی اصلاحات متعارف کروانے میں بھرپور کام کر رہا ہے۔
اُنھون نے کہا کہ عالمی معیار کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آزاد معاشرہ ہونا ضروری ہے جہاں میڈیا آزاد ہو اور انٹرنیٹ کی سہولت پر کوئی پابندی نا ہو۔
’’یہ ایک مشکوک صورت حال ہے کیونکہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضع اشارے نظر نہیں آ رہے۔‘‘
مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے حقو ق کے حوالے سے چین پر جو تنقید کی جا رہی ہے اس کے جواب میں چین نے کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تمام بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔