پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپنے تمام بیرونی قرضوں بشمول چین سے 'سی پیک' منصوبوں کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کی تفصیل عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو دینے پر تیار ہے۔
اقتصادی امور سے متعلق حکومتِ پاکستان کے ترجمان فرخ سلیم نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، "میں ذاتی طور پر بھی اور حکومتِ پاکستان یہ چاہتی ہے کہ جتنے بھی قرضے پاکستان کے نام پر لیے جائیں، ان میں شفافیت ہونی چاہیے۔ چاہے وہ سی پیک کے ہوں یا کسی اور ذریعے سے آ رہے ہوں۔"
فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ اگلے 12 مہینوں میں بیرونی قرضوں کی مدد میں پاکستان کو تقرییاً آٹھ سے نو ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے اور اس سال اس میں چینی قرضوں کا تناسب صرف 30 کروڑ ڈالر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئندہ تین برسوں تک یہ رقم اتنی ہی رہے گی اور اس کے بعد اس میں اضافہ ہوگا۔
لیکن انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ تین برسوں کے بعد پاکستان کو سالانہ کتنا قرض چین کو واپس کرنا ہو گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان سی پیک سے منسلک چینی قرضوں کی تفصیل سے بھی آئی ایم ایف کا آگاہ کرے گا یا نہیں، تو انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ان قرضوں کی تفصیل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
فرخ سلیم کے بقول، "ایسا ہی معاملہ ایک بار پہلا بھی اس وقت سامنے آیا تھا جب 2008ء میں آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا تھا کہ لندن کلب اور پیرس کلب کے قرضوں کی تفصیل بتائی جائے۔ تو اس وقت بھی پاکستان حکومت نے اس پر عمل کیا تھا۔ اب بھی حکومتِ پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔"
فرخ سلیم کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چین نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں میں چین پاکستان راہداری (سی پیک) سے منسلک قرضوں کا تناسب بہت کم ہے اور پاکستان کی موجودہ اقتصادی مشکلات کی وجہ 'سی پیک' نہیں ہے۔
یہ بات چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے پیر کو ایک نیوز بریفنگ میں کہی۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کی پاکستان کی درخواست سے متعلق ایک سوال پر لوکانگ نے کہا کہ چین پاکستان کی طرف سے اپنی اقتصادی مشکلات کے حل کے لیے 'آئی ایم ایف' سے مالیاتی پیکج کے لیے رجوع کرنے کے اقدام کی حمایت کرتا ہے۔
تاہم اس کے ساتھ ہی چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے لیے کسی بھی ممکنہ بیل آؤٹ پیکج کا اثر پاکستان اور چین کے درمیان جاری اقتصادی تعاون پر نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا رکن ہونے کے ناتے چین آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال کا معروضی طور پر جائزہ لے کر اسے موجودہ مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے مدد دینے کی حمایت کرتا ہے۔
لیکن ترجمان نے واضح کیا کہ "ایسا کرتے ہوئے چین اور پاکستان کے درمیان جاری باہمی تعاون پر اس کا اثر نہیں پڑنا چاہیے۔"
پاکستان نے بیرونی ادائیگیوں کے عدم توازن اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی مسلسل کمی کی وجہ سے درپیش اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے گزشتہ ہفتے مالیاتی پیکچ کے لیے آئی ایم ایف کو باضابطہ طور پر درخواست دی تھی۔
لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے کتنا قرض حاصل کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان یہ کہ چکے ہیں کہ پاکستان کو اپنی معیشت کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لیے 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے مالیاتی معاونت کے لیے دی جانے والی درخواست پر بات چیت کے لیے آئی ایم ایف کا ایک وفد آئندہ چند ہفتوں میں پاکستانی حکام سے بات چیت کے لیے اسلام آباد کا دورہ کرے گا۔
توقع ہے کہ اس دورے کے دوران آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کی طرف سے مختلف مالیاتی اداروں اور ملکوں سے حاصل کیے گئے دیگر قرضوں کے معاملے بھی بات کرے گا۔
'آئی ایم ایف' کی سربراہ کرسٹین لگارڈ کہہ چکی ہیں کہ ان کے ادارے کے لیے مکمل طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ملک پر کتنا قرض ہے اور اس کے لیے قرض کی نوعیت اور شرائط اور حجم کو جاننا بھی ضروری ہے تاکہ جب آئی ایم ایف اس ملک کے لیے کسی پروگرام پر غور کرے تو اسے معلوم ہو کہ یہ ملک کتنے قرضے سہار سکتا ہے۔
بعض بین الاقوامی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں جاری چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کی بوجھ میں اضافہ ہوا ہے جو پاکستان کی اقتصادی مشکلات کی ایک وجہ ہیں۔
امریکہ کی محکمۂ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوارٹ نے بھی گزشتہ ہفتے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات کی ایک وجہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک قرضے ہیں۔
لیکن پاکستان اور چین اس تاثر کو رد کرچکے ہیں۔
پیر کو پریس بریفنگ میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے پاکستان کے بیرونی قرضوں سے متعلق اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں سی پیک کے قرضوں کا حصہ بہت کم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر سی پیک منصوبوں کو وسعت دینے اور پاکستان کی خود انحصاری پر مبنی ترقی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے تیار ہے۔